جانے دے:
قربتِ لمس کو گالی نہ بنا
پیار میں جسم کو یکسر نہ مِٹا
جانے دے
تو جو ہر روز نئے حسن پہ مر جاتا ہے
تو بتاے گا مجھے عشق ہے کیا
جانے دے
چائے پیتے ہیں کہیں بیٹھ کے دونو بھائی
جا چکی ہے نا تو بس چھوڑ چل آ
جانے دے
جانتا ہوں کہ تجھے کون سی مجبوری تھی
اب میرے سامنے ٹسوے نہ بہا
جانے دے
تو کہ جنگل میں لگی آگ سی بے ساختہ ہے
خود پہ تہذیب کی چادر نہ چڑھا
جانے دے