Baitha ke apne qareeb uthaaya kabhi kisi ne kabhi kisi ne
Hamain akila kiya khudiya , kabhi kisi ne kabhi kisi ne
غزل
بیٹھا کے اپنے قریب اُٹھایا کبھی کسی نے کبھی کسی نے
ہمیں اکیلا کیا خدایا ، کبھی کسی نے کبھی کسی نے
نہ اِس نظر نے کوئی کمی کی ،نہ اُس نطر نے کوئی کمی کی
جگر پر تِیر ستم چلایا ،کبھی کسی نے کبھی کسی نے
صنم کدو میں ہمیشہ ہم نے بلند رکھی ازان اپنی
بہت مکافات سے ڈرایا کبھی کسی نے کبھی کسی نے
ہٹے نہیں اپنے راستے سے ہم ، اہل دنیا و دیں میں رہ کر
ہمارا ایمان آزمایا ، کبھی کسی نے کبھی کسی نے
سلیس و سادہ غزل کے فن میں ، رہے یگانہ ہم انجمن میں
اگرچے رنگِ سخن اُڑایا، کبھی کسی نے کبھی کسی نے
جو رازداری کے ساتھ سن کر گئے تھے انور شؔعور صاحب
وہ قصہ آکر ہمیں سنایا ،کبھی کسی نے کبھی کسی نے
بیٹھا کے اپنے قریب اُٹھایا کبھی کسی نے کبھی کسی نے
ہمیں اکیلا کیا خدایا ، کبھی کسی نے کبھی کسی نے