نظم:عشق
عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے ناپائیدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزہ نہیں تپش و انتظار کا
میری بساط کیا ہے تب و تاب یک نفس
شعلہ سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگیٔ جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دل بے قرار کا
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لا زوال ہو
یارب وہ درد جس کی کسک لا زوال ہو