غزل
کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لیے
شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لیے
اپنے ہم زاد درختوں میں کھڑا سوچتا ہوں
میں تو آیا تھا انہیں آگ لگانے کے لیے
میں نے تو جسم کی دیوار ہی ڈھائی ہے فقط
قبر تک کھودتے ہیں لوگ خزانے کے لیے
دو پلک بیچ کبھی راہ نہ پائی ورنہ
میں نے کوشش تو بہت کی نظر آنے کے لیے
لفظ تو لفظ یہاں دھوپ نکل آتی ہے
تیری آواز کی بارش میں نہانے کے لیے
کس طرح ترک تعلق کا میں سوچوں تابشؔ
ہاتھ کو کاٹنا پڑتا ہے چھڑانے کے لیے