غزل
دل کی رغبت ہے جب آپ ہی کی طرف
کس لیے آنکھ اٹھتی کسی کی طرف
کیسی الجھن ہے بازی گہہ شوق میں
ہم ہیں ان کی طرف وہ کسی کی طرف
صرف اشک و تبسم میں الجھے رہے
ہم نے دیکھا نہیں زندگی کی طرف
ہم جو غول بیاباں سے واقف نہیں
چل دیے دور کی روشنی کی طرف
دیر و کعبہ سے پیاسی جبینیں لیے
آ گئے ہم تری بندگی کی طرف
رات ڈھلتے جب ان کا خیال آ گیا
ٹکٹکی بندھ گئی چاندنی کی طرف
جب نہ قصد خودی کے دریچے کھلے
اہل دل ہو لیے بے خودی کی طرف
ہ
م نے دل کی لگی ان سے کی تھی بیاں
بات وہ لے گئے دل لگی کی طرف
جادۂ آگہی پر بڑی بھیڑ تھی
سیکڑوں مڑ گئے گمرہی کی طرف
ہیں مرے حلقہ علم میں بالیقیں
آسماں کے پیام آدمی کی طرف
ان کے جلووں کی جانب نظر اٹھ گئی
موج تھی بڑھ گئی چاندنی کی طرف
کون سا جرم ہے کیا ستم ہو گیا
آنکھ اگر اٹھ گئی آپ ہی کی طرف
جانے وہ ملتفت ہوں کدھر بزم میں
آنسوؤں کی طرف یا ہنسی کی طرف
اس کے پندار خود آگہی پر نہ جا
دیکھ انساں کی بے چارگی کی طرف
اپنے ماحول میں کیوں اندھیرا کریں
دیر تک دیکھ کر روشنی کی طرف
موت کی راہ آسان ہو جائے گی
پیار سے دیکھیے زندگی کی طرف
ہم جنوں مند بھی اتنے واقف تو ہیں
عقل کا رخ ہے وارفتگی کی طرف
شاعری کی کسی منزل درد میں
اک دریچہ ہے پیغمبری کی طرف
جانے آنکھوں نے آنکھوں سے کیا کچھ کہا
زندگی جھک گئی زندگی کی طرف
دانشؔ انکار خالق سے ہوتا نہیں
دیکھتا ہوں میں جب آدمی کی طرف