Badli na us ki ruh kisi inqilab mein
Kia cheez zinda hai dil ke rabab mein
غزل
بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں
کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں
لفظوں میں بولتا ہے رگ عصر کا لہو
لکھتا ہے دست غیوب کوئی اس کتاب میں
تو ڈھونڈتی ہے اب کسے اے شام زندگی
دو دن تو خرچ ہو گئے غم کے حساب میں
یاران زود نشہ کا عالم یہ ہے کہ آج
یہ رات ڈوب جائے گی جام شراب میں
نیندیں بھٹکتی پھرتی ہیں گلیوں میں ساری رات
یہ شہر چھپ کے رات کو سوتا ہے آب میں
یہ آج راہ بھول کے آئے کدھر سے آپ
یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں
بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں
کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں