
Duriyan SimaTne Mein Der Kuchh To Lagti Hai
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
رنجشوں کے مٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
ہجر کے دوراہے پر ایک پل نہ ٹھہرا وہ
راستے بدلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
آنکھ سے نہ ہٹنا تم آنکھ کے جھپکنے تک
آنکھ کے جھپکنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
حادثہ بھی ہونے میں وقت کچھ تو لیتا ہے
بخت کے بگڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
خشک بھی نہ ہو پائی روشنائی حرفوں کی
جان من مکرنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
فرد کی نہیں ہے یہ بات ہے قبیلے کی
گر کے پھر سنبھلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
درد کی کہانی کو عشق کے فسانے کو
داستان بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
دستکیں بھی دینے پر در اگر نہ کھلتا ہو
سیڑھیاں اترنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
خواہشیں پرندوں سے لاکھ ملتی جلتی ہوں
دوست پر نکلنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
عمر بھر کی مہلت تو وقت ہے تعارف کا
زندگی سمجھنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
رنگ یوں تو ہوتے ہیں بادلوں کے اندر ہی
پر دھنک کے بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
ان کی اور پھولوں کی ایک سی ردائیں ہیں
تتلیاں پکڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
زلزلے کی صورت میں عشق وار کرتا ہے
سوچنے سمجھنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
بھیڑ وقت لیتی ہے رہنما پرکھنے میں
کاروان بننے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
ہو چمن کے پھولوں کا یا کسی پری وش کا
حسن کے سنورنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
مستقل نہیں امجدؔ یہ دھواں مقدر کا
لکڑیاں سلگنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے