Renowned Urdu poet and writer, the late Aarif Mansoor, was commemorated in a special tribute and literary event, “Saeed-ul-Bashireen,” held on October 1, 2023, at Al-Falah Hall, Akbar Road, Karachi, following the Maghrib prayer. The program was organized under the leadership of Dr. Mairaj Al Hadi Siddiqi, and the poetry segment was overseen by Mr. Khalid Irfan.
Aarif Mansoor’s journey began in 1981 when he first met Sher Afghan Khan Johar in Karachi. At that time, he was serving as an Assistant Inspector in the Airport Security Force and had gone to the ASF Academy Karachi for training, where Mansoor was posted as a Security Officer. During the course of their interaction, they discovered their shared Pashtun heritage and their connection to the illustrious poet Ghazi Nazeer Ali Khan Rohatki. This encounter marked the beginning of a profound friendship.
After completing his training, Sher Afghan Khan Johar was transferred to Multan Airport, and a few months later, Aarif Mansoor also joined as the Chief Security Officer in Multan. This led to a reunion in their hometown of Tlemcen, where Mansoor introduced Sher Afghan Khan Johar to his revered father, Ghazi Nazeer Ali Khan. From that day, their families became closely connected.
Despite his seniority and high position, Aarif Mansoor always treated Sher Afghan Khan Johar with brotherly affection and started imparting the secrets of poetry to him. They maintained their connection through letters, calls, and meetings whenever their duties aligned.
Aarif Mansoor, known for his honesty and dedication, often contributed a significant part of his income to charitable and philanthropic causes. This led to financial difficulties at home, even though he had a vast collection of literary works. His book, “Saeed-ul-Bashireen,” focused on a poetic interpretation of the life of the Prophet Muhammad (peace be upon him) through a systematic study of Quranic verses. It had been written a long time ago, but due to various circumstances, it had not been published.
His son, Mohsin Tanveer, took the initiative to search for and organize the book. With painstaking effort and research, they finally arranged the material. Although there was an immense effort, any shortcomings in the book should be attributed to the editor, not Aarif Mansoor.
Aarif Mansoor was born in Multan in 1950 and acquired his early education in Bahawalpur and Multan. He completed his Master’s in Urdu from Punjab University, Lahore, and began his academic journey with a thesis on “Karachi Mein Naatgo Sha’ira” (Naat poets in Karachi). In 1971, he started his government service as an Assistant Air Traffic Controller and retired in 2014 when the Airport Security Force was established. His journey in poetry began in 1963, and he initially wrote Urdu ghazals, but later, he explored different poetic forms such as Nazm, Rubaiyat, and more.
In the literary world, Aarif Mansoor made significant contributions with publications such as “Sooraj Zameen Par” (a collection of ghazals, rubaiyat, and poetry) in 1989, “Mursal o Mursil” (on the names of Allah and the Prophet) in 1998, and “Hamd o Munajat” (a versified translation of Quranic supplications) in 2000. He had numerous poetic works published in various newspapers and journals.
Aarif Mansoor was also actively involved in radio programs as “Mansoor Khan” in Radio Pakistan Multan’s “Jamhoor Di Awaaz” and “Mehr-e-Watan” in Azad Kashmir Radio. He participated in the recording and scripting of various programs and also wrote features, essays, and short stories.
In recognition of his literary services, Aarif Mansoor received multiple awards, including the Literary Award for Naat from the National Bank Literary Society and the Literary Award for Poetry from Government College Bosan Road, Multan.
Aarif Mansoor, a man of limited formal education but immense wisdom, dared to compile “Saeed-ul-Bashireen,” a book about the Prophet Muhammad (peace be upon him). This endeavor was made possible with the help and support of his friends and literary companions, including Dr. Aziz Ahsan, Saud Usmani, Kashif Irfan, Qasim Riaz, Tahir Kamal, and many others. The book’s title design was the result of the dedicated efforts of Tahir Kamal.
The book “Saeed-ul-Bashireen” is a tribute to the legacy of Aarif Mansoor and is now available for readers. It is hoped that after reading the book, his admirers will appreciate and treasure his valuable work.
Event Pictures
Social Media Post
اردو کے ممتاز و معتبز شاعر و ادیب جناب عارف منصور (مرحرم) کی تصنیف سید البشرین مرتب: شیر افگن خان جوہر کی تعارفی تقریب و نعتیہ مشاعرہ مورخہ 1 اکتوبر 2023 بروز اتوار بعد نماز مغرب جمعیت الفلاح ہال اکبر روڈ صدر کراچی میں منعقد ہوا۔
اس پروگرام کی صدارت ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی صاحب نے کی اور نعتیہ مشاعرے کی صدارت جناب خالد عرفان صاحب نے کی ۔
تعارف کتاب
عارف منصوؔر سے میری پہلی مُلاقات ۱۹۸۱ء میں کراچی میں ہوئی جب میں ایئرپورٹس سیکیورٹی فورس میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر بھرتی ہو کر ٹریننگ کی غرض سے اے ایس ایف اکیڈمی کراچی گیا۔ وہاں آپ سیکیورٹی آفیسر تعینات تھے۔
دورانِ ٹریننگ انہوں نے میرا انٹرویو لیا جس سے جہاں اُنہوں نے مجھ سے بہت سے سوالات پوچھے وہیں مجھے بھی اُن سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع میسر آیا۔ ایک عجیب سی اُنسیت کا احساس ہوا اور غیر محسوس انداز میں ہم ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے گئے۔ دورانِ کورس ایک دن چائے کے وقفے میں دورانِ گفتگو خاندانی تعارف شروع ہوا اور جب میں نے بتایا کہ ہم کاکڑ زئی پٹھان ہیں اور استاذالشعراء حضرت غضنفر علی خان غضنفر روہتکی میرے والد ہیں اور ہمارا پورا خانوادہ ادب سے تعلق رکھتا ہے تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ’’ مجھے کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا،میں بھی محمد زئی پٹھان ہوں اور شاعر بھی ہوں، ملتے جُلتے رہا کرو ‘‘۔ پھر ٹریننگ مکمل کرنے کے کچھ عرصہ بعد میرا تبادلہ کراچی سے ملتان ایئرپورٹ ہو گیا اور چند ماہ بعد عارف منصوؔر بھی بطور چیف سیکیورٹی آفیسر ملتان آ گئے تو ایک چھٹی والے دن میں انہیں اپنے آبائی شہر تلمبہ لے گیا اور اپنے والدِ محترم سے مُلاقات کروائی۔ دونوں بہت خوش ہوئے اور والد صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے حُکم دیا کہ بیٹا ملازمت میں اِن کے ساتھ رہو یا نہ رہو لیکن اِن سے تا زندگی رابطہ قائم رکھنا، تمہیں اِن سے سیکھنے کو بہت کچھ مِلے گا۔ وہ دن اور آج کا دن، میں اُن کے خانوادے کے ساتھ جڑا ہوا ہوں۔ عارف منصورؔ نے اپنی حیات میں بہت زیادہ
سینئرہونے کے باوجود ہمیشہ مجھے بھائیوں والاپیار دیا اور مجھے شاعری کے رموز بھی سکھانے لگے۔ پھر تو اُن کی یا میری پوسٹنگ جہاں بھی ہو ہم رابطے میں رہتے۔ جب اکٹھے ڈیوٹی ہوتی تو ڈیوٹی اوقات کے بعد اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاتےجہاں اُن کے بچے بھی پورے ادب و احترام کے ساتھ چچا کہہ کر مخاطب کرتے، ہم گھنٹوں وہاں شاعری،ادب اور دیگر امور پر گفتگو کرتے۔
عارف منصورؔ انتہائی ایماندار آفیسر تھے اور اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ ضرورتمندوں اور فلاحی کاموں پر خرچ کر دیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ مالی مُشکلات کے باعث گھر کا خرچہ ہی مُشکل سے چلتا تھا اور بیشمار ادبی کلام جمع ہونے کے باوجودطباعت شاذ شاذ ہی کرا سکے۔ زیرِ نظر کتاب ’’ سیدالمبشرین ‘‘ استدلالِ قرآن سے منظوم سیرتِ نبویﷺ، سانیٹ کے انداز میں بہت پہلے لکھنا شروع کی تھی اور کافی حد تک مکمل بھی ہو چُکی تھی لیکن حالات نے اسے چھپوانے کی اجازت نہ دی۔
اب اُن کے اہلِ خانہ خصوصاً اُن کے بڑے صاحبزادے محسن تنویر کے پُرزور اسرار پر اُسے ڈھونڈ کر مُرتب کرنے اور چھپوانےکا وعدہ تو کر لیا لیکن جب اِس پر کام شروع کیا تو یہ انتہائی کٹھن کام ثابت ہوا، پسینے بہنے لگے،نجانے عارف منصوؔرنے اتنی عرق ریزی کیسے کر لی تھی ۔ ہر ہر موڑ پر تحقیق ضروری تھی تاکہ کسی اعتراض کی گنجائش باقی نہ رہے۔ اپنے تئیں تو بہت کوشش کی ہے لیکن اگر کوئی کمی کوتاہی رہ گئی ہو تو اُس کو میری کم علمی اور غلطی گردانا جائے نہ کہ
عارف منصورؔ کی۔ عارف منصور کا اصل نام تنویر عارف خان تھا جنہوں نے ۱۹۵۰ء میں وزیر احمد خان محمد زئی پٹھان کے گھر ملتان میں جنم لیا۔ ابتدائی تعلیم بہاولپور اور ملتان سے حاصل کر کے ایم۔اے اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا اور’’ کراچی میں نعت گو شعراء ‘‘کے موضوع پر کراچی یونیورسٹی سے ایم فل کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۱ء میں اسسٹنٹ ایئر ٹریفک کنٹرولر کے طور پر سرکاری ملازمت کا آغاز کیا اور اکتوبر ۱۹۷۶ء میں جب ایئرپورٹس سیکیورٹی فورس کا قیام عمل میں آیا تو اُس سے مُنسلک ہو گئے اور ڈائریکٹر کے عہدے سے ۲۰۱۴ء میں ریٹائر ہوئے۔ شاعری کا آغاز ۱۹۶۳ء میں کیا اورمنصورؔ ملتانی تخلص رکھ کر مشورۂ سُخن کیلئے پہلے اپنی والدہ ماجدہ جو علامہ اسد ملتانی کی بھانجی تھیں اور بعد میں ناز اکبر آبادی مرحوم کو منتخب کیا۔ آغاز اُردو غزل سے کیا لیکن ساتھ ساتھ نظم،آزاد نظم،رباعی،مثنوی،سلام،منقبت،ہائیکو اور سانیٹ پر بھی مکمل عبور حاصل کیااور سرائیکی میں بھی غزل،نظم اور افسانے تحریر کئے اور بعد میں تخلص تبدیل کر کے عارف منصورؔ ہو گئے۔ جب پہلی بار عمرے کی سعادت حاصل کرنے والدہ صاحبہ کے ساتھ سعودیہ گئے تو نعت کا آغاز کیا اور پھر تقریباً نعت کے ہی ہو رہے۔ دبستانِ وارثیہ کراچی کے زیرِ اہتمام شروع ہونے والے ماہانہ ردیفی نعتیہ مشاعروں کے انعقاد
میں صفِ اوّل کے منتظمین میں شامل رہے۔
اُن کی مطبوعات میں ’’ سورج زمین پر ‘‘ (غزلیات،رباعیات اور نظمیں) ۱۹۸۹ء میں، ’’مُرسِل و مُرسَل‘‘ (اسمائے الہیٰ اور اسمائے رسولﷺ پر قطعات) ۱۹۹۸ء میں،’’حمد و مناجات (قرآنی دُعاؤں کا منظوم ترجمہ) ۲۰۰۰ء میں چھپ کر منظرِ عام پر آئے۔ اس کے علاوہ بے شمار اخبارات و رسائل و جرائد میں بے شمار شعری تخلیقات چھپ چُکی ہیں۔ ریڈیو پاکستان ملتان کے عوامی پروگرام ’’ جمہور دی آواز ‘‘ میں بطور منصور خان اور آزاد کشمیر ریڈیو (تراڑ کھل) کے پروگرام ’’ میرے وطن ‘‘ میں بنام میر منصور کمپئرنگ کے فرائض سر انجام دے چُکے ہیں۔ ریڈیو کے مختلف پروگراموں کیلئے فیچر، خاکے اور افسانے تحریر کئے۔ ادبی خدمات کے اعتراف میں نیشنل بنک ادبی سوسائٹی کی جانب سے ’’ ادبی ایوارڈ برائے نعت ‘‘ ، گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان کی جانب سے ’’ ادبی ایوارڈ برائے شاعری ‘‘ کے علاوہ مختلف اداروں کی جانب سے بے شمار یادگاری شیلڈز حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔۶، فروری ۲۰۱۶ء کو لاہور میں ہارٹ اٹیک ہوا اور اِس جہانِ فانی سے کوچ فرما گئے اور اُن کی تدفین کراچی کے ماڈل کالونی قبرستان میں ہوئی۔
اپنی کم علمی و کم مائیگی کا بھر پور احساس ہونے کے باوجود سیدالمبشرینﷺ کو مرتب کرنے کی جسارت اور سعی کی ہے۔ اس سلسلے میں جن دوست احباب نے میرا ہاتھ بٹایا اُن کا ذکر نہ کرنا ناانصافی ہو گی لہٰذ ا میںجناب ڈاکٹر عزیز احسن عنہ صاحب کا از حد مشکور ہوں جنہوں نے اس کتاب کے مسودے پر ابوالحسن خاور صاحب کے کہنے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف اِس کا مقدمہ لکھا بلکہ اِس کی نوک پلک سنوارنے پر بہت محنت کی ا ور عارف منصورؔ سے اپنی دیرینہ دوستی کا حق ادا کیا اور اُن سے کیا ہوا وعدہ نبھایا۔ڈاکٹر ریاض مجید صاحب نے اپنی بہت زیادہ مصروفیت میں سے وقت نکال کر مسودے کو پڑھ کر اپنی رائے سے نوازا۔سعود عثمانی صاحب، کاشف عرفان صاحب اور قاسم راز صاحب نے کمالِ محبت سے فلیپ اور بیک ٹائٹل کیلئے اپنی تحریریں بھیجیںاوراس سلسلے میں ابوالحسن خاورصاحب نے قدم قدم پرمیری رہنمائی فرمائی،۔مفتی معظم سدا معظم صاحب اور دُرِ صدف نے مسودے کی پروف ریڈنگ میں حصہ لیتے ہوئے کمال مہارت دکھائی،طاہر کمال جنجوعہ صاحب نے بہت محنت سے اس کتاب کا ٹائٹل تیار کیا، جناب مرزا حفیظ اوج،سعید احمد خان ضیغم ،سیف اللہ خان،نجم السحر، اسوۂ میرب، درِ شہوار، خزیمہ کائنات،ماریہ،مائرہ،نمرہ نے ہر ممکن ہاتھ بٹایا۔اپنی شریک حیات شائستہ انجم کا ذکر نہ کر کے میں کسی افتاد کا متحمل نہیں ہو سکتا جنہوں نے اِس کتاب کو مرتب کرنے میں شروع سے آخر تک بہت زیادہ تعاون کیا زبیر احمدشاہ صاحب نے پرنٹنگ اور بائنڈنگ میں حتی المقدور تعاون فرمایا اور غضنفر اکیڈمی پاکستان کےتمام جملہ اراکین کا تہہ دل سے مشکور ہوں جو میرے اِس کام میں پیش پیش رہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔ امید ہے کتاب کے مطالعہ کے بعد احباب اپنی قیمتی آرا ءسے ضرور نوازیں گے۔
شیرافگن خان جوہر