ہم کبھی عشق کو وحشت نہیں بننے دیتے
دل کی تہذیب کو تہمت نہیں بننے دیتے
لب ہی لب ہے تو کبھی اور کبھی چشم ہی چشم
نقش تیرے تری صورت نہیں بننے دیتے
یہ ستارے جو چمکتے ہیں پس ابر سیاہ
تیرے غم کو مری عادت نہیں بننے دیتے
ان کی جنت بھی کوئی دشت بلا ہی ہوگی
زندہ رہنے کو جو لذت نہیں بننے دیتے
دوست جو درد بٹاتے ہیں وہ نادانی میں
در حقیقت مری سیرت نہیں بننے دیتے
فکر فن کے لیے لازم مگر اچھے شاعر
اپنے فن کو کبھی حکمت نہیں بننے دیتے
وہ محبت کا تعلق ہو کہ نفرت کا ندیمؔ
رابطے زیست کو خلوت نہیں بننے دیتے