انٹرنیٹ کے قیدی:
جیل کے قیدی تو آپ نے سُنے اور دیکھے ہوں گے، جو اپنی سزا پوری کرکے دوبارہ اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرتے ہیں مگر انٹرنیٹ کے قیدی ذرا مخلتف ہے، جو نہ صرف بغیر سزا کے جیل کاٹتے ہیں وہ بھی عمر قید کی۔ چلیں مان لیتے ہیں ٹیکنالوجی کے بے تحاشہ فائدے ہیں، دنیا ایک گلوبل ویلج کی صورت اختیار کرچکی ہے، اِس نے فاصلے گھٹا دیئے ہیں، آپ اپنا پیغام چند لمحوں میں پوری دنیا میں پہنچاسکتے ہیں، چند بٹن دبانے سے پوری دنیا آپ کے سامنے کھڑی ہوتی ہے، روابط آسان ہوگئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ سانس آئے نہ آئے وائی فائی کے سگنل نہیں رکنے چاہیئے۔ لیکن یہ بات بھی ماننی ہوگی کہ کسی بھی شے کا بے دریغ استعمال نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
جانے انجانے میں کچھ ایسا ہی حادثہ ہمارے معاشرے کے ساتھ بھی رونما ہوا ہے۔ ٹیکنالوجی نے دنیا کے فاصلے تو گھٹا دیئے مگر دلوں کے فاصلے بڑھا دیئے ہیں۔ گھر کے افراد آپس میں اجنبی ہوتے چلے جارہے ہیں، دھوکا دہی کے واقعات بھی عام ہیں۔ غیر اخلاقی مواد دیکھنے والے ممالک میں پاکستان نے بھی بڑھ چڑھ کر شمولیت اختیار کی اور سرِفہرست ممالک میں اہم پوزیشن کا حقدار ٹھہرا، طالبان نے بھی اِس کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے دنیا بھر سے مجاہدین بھرتی کرنے شروع کر دیئے ہیں، گزشتہ دنوں پاکستانی میڈیکل کالج کی طالبہ بھی اِس گروہ میں شامل ہوکر دھماکے کرنے چلی تھی۔
اگر انسان ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کررہا ہے تو ٹیکنالوجی بُری نہیں ہے، بلکہ اُس کا استعمال اسے بُرا یا اچھا بناتا ہے۔ کوئی بھی بات یا پیغام پھیلانے سے پہلے دیکھئے کہ آیا اِس سے کسی کی دل آزاری تو نہیں ہو رہی، انٹرنیٹ کا بامقصد استعمال کیجیئے، اپنے کاروبار کے لیے، تعلیم کے لیے، پہلے خود میں کوئی قابلیت پیدا کریں پھر شیئر کریں ناں کہ سستی شہرت کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے پھریں، یاد رکھیئے محنت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں، ہاں چائے والے کی طرح آپ کا بھی تُکا لگ سکتا ہے اور آپ بھی آن کی آن مشہور اور امیر ہوسکتے ہیں، مگر کیا تُکے کی آس میں ساری زندگی گزار لیں گے؟ اور اگر تُکا ہی نہ لگا تو؟ اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت نکالیں اور سوچیں کہ میں نے کیا ساری زندگی موبائل ہاتھ میں پکڑے آٹو پائلٹ موڈ پر رہنا ہے اور دیواروں سے ٹکراتے رہنا ہے؟ یا صرف مزاحیہ ویڈیوز دیکھ کر شیئر کرتے رہنا؟ یا گھر میں بیٹھ کر سیاستدانوں کو بُرا بھلا کہتے رہنا ہے؟ ہمارا حال تو یہ ہے کہ اگر گھر میں چھوٹا بچہ بھی روئے تو اسے بہلانے کے لیے موبائل فون پکڑا کر چل چھیا چھیا والا گانا سنایا جاتا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس جدیدیت کو ضرورت تک محدود رکھا جائے، اور جس حد تک ہوسکے بے جا استعمال سے گریز کیا جائے، تاکہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو معاشرے کی اِن روایات سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل سکے جو ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔