دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر

آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق ہی اس طرح کی کہ ایک لا علم انسان کو کسی علم رکھنے والے انسان کا محتاج بنایا ہے۔ انسان محض کتابوں سے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتا جو استاد کی شکل میں اللہ کی عطا اسے سکھا دیتی ہے۔ روز اول سے یہ روحانی رشتہ قائم ہے اور سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی کا سبب رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں استاد کی بہت اہمیت رہی ہے۔ اس بات کی تصدیق خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمائی

انما انا بعثت معلما(حدیث)

بیشک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

اگر ہم سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مطالعہ کریں تو یہ بات مزید کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ فریضہ خود بھی ادا کیا اور کی ترغیب بھی دلائی۔ صفہ کے علمی فیضان کی بدولت اس حقیقت کے باوجود کہ ابتداء میں نہ تعلیمی ادارے عام تھے اور نہ ہی تعلیمی سہولتیں موجود تھیں۔ صحابہ کرام ؓنے حصول علم کا سلسلہ جاری رکھا اور مسلمانوں نے حصول علم کو فوقیت دی اور اس شعبے میں گراں قدر خدمات پیش کیں۔

اگر تدریس کو بحثیت مشغلہ دیکھا جائے تو یہ مشغلہ تمام پیشوں سے اعلی ،اشرف و افضل ہے،دنیا میں لوگ جتنی بھی محنتیں کر رہے ہیں ان میں معلّم کی فضیلت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتاہے۔عربی ضرب المثل ہے کہ خیر الاشغال تھذیب الاطفال۔بہترین مصروفیت و مشغلہ بچوں کی تربیت کرنا ہے۔ استادافراد کی تربیت کرکے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیتا ہے گویا بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں جب کہ بادشاہوں پر معلّمین کی حکومت ہوتی ہے۔

استاد ایک خزانے کا مالک ہے ،اگر آپ خزانے کے مالک سے خوش خلقی‌اور خوش مزاجی سے پیش آتے ہیں تب ہی وہ خزانہ آپ کے ہاتھ لگے گا۔استاد کی اہمیت کا اندازہ بطلیموس کے اس قول سے لگا سکتا ہے کہ استاد سے ایک گھنٹہ گفتگو دس برس کے مطالعہ سے مفید ہے ۔

تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاد کے عوض

دل چاہتا تھا ہدیہء دل پیش کیجیے

دنیا کے ہر مذہب ، قوم ، ملت اور تہذیب میں  استاد کی قدر و منزلت سے انکار نہیں کیا جاتا۔ اسلام نے جہاں قدم قدم پر انسان کی رہنمائی کی رہیں اسے زیور علم سے آراستہ کرنے والے استاد کا مقام والدین کے بعد رکھا بلکہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ

انسان کے تین باپ ہیں ایک اس کا نسبی باپ جو اس کے دنیا میں آنے کا سبب بنا، دوسرا اس کا سسر جس نے اپنی بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کیا اور تیسرا استاد جس نے اسے زیور تعلم سے آراستہ کیا۔

اس حدیث سے ہی استاد کو روحانی باپ کا درجہ ملا۔ موجودہ دور میں اساتذہ کا ادب و احترام اس طرح نہیں کیا جاتا جیسے پہلے کے وقت میں کیا جاتا تھا اور نہ اس طرح کی اطاعت دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں تو ہم پر لازم کے ہے اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کریں ۔ہمارے فرض ہے کہ جس شخص نے ہمیں پڑھایا ہم اس کی اطاعت کریں ۔ اس ضمن میں  اسلام نے اساتدہ کے جو حقوق بیان کیے ان میں اطاعت و فرمانبرداری، ادب و احترام، حسن سلوک، تندہی و دلجمعی، آدابِ مجلس، دعائے خیر، عذر خواہی اور ان کی ہدایات پر عمل شامل ہے۔

استاد کی تعریف کرتے ہوئے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجھہ نے ارشاد فرمایا

جس نے مجھے ایک حرف سکھایا وہ میرا استاد ہے۔

اس فرمان کے مطابق ہر وہ شخص انسان کا استاد ہے جس نے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اس کی رہنمائی کی ، اس کا ہاتھ تھاما،  اس کی پریشانیوں کا حل نکالا یا باقاعدہ اسے پڑھایا۔

ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کے رازوں میں سے ایک بہت بڑا راز اپنے اساتذہ کرام کی قدردانی ہے۔ جاپان کے ایک استاد اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ ایک بارہوائی اڈے پرمجھے تفتیش کے لیے روکا گیا۔ جب انہوں نے مجھ سے میرا پیشہ پوچھا ، تو میرے بتانے پر اگلے کئی گھنٹے میں نے خود کو ملک کا صدر محسوس کیا ، کیوں کہ جس طرح انہوں نے میرا اکرام اور خاطر تواضع کی وہ کسی صدر سے کم نہیں تھی، باوجود اس کے کہ ان میں سے کوئی بھی میرا شاگرد نہیں تھا۔

اس جیسے سیکڑوں واقعات ہیں، جس سے اساتذہ کی قدر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اور اپنے محسن کو فراموش کرنا فطرت کی سراسر مخالفت ہے۔اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اساتذہ کی قدر کریں اور ان کو ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھیں۔

Share this with your friends