شاعرِ مزدور احسان دانش
مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں
اکیسویں صدی کے ادبی منظر نامے میں چند ہی شاعروں نے قارئین کے دل و دماغ پر قبضہ کیا ہے ان میں سے احسان دانش ایک ہیں. ۔ اپنی روشن خیالی سے احسان دانش نے اپنے وقت کے سب سے قابل اور مشہور شاعروں میں اپنا مقام پختہ کیا ہے، ان کی ہم عصر تخلیقات پوری دنیا کے سامعین کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے گونج رہی ہیں۔ انسانی تجربے عکاسی کرنے والی نظمیں,غزلوں سے لے کر زندگی، محبت اور معاشرے کے پُرجوش عکاسی تک، دانش عباس نے شاعری کی دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
جب کوئی جگنو چمکتا ہے اندھیری رات میں
جب کوئی جگنو چمکتا ہے اندھیری رات میں
اس طرح ظلمت میں لہراتی ہے نورانی لکیر
جیسے ساحل پر گرجتے بادلوں کے سائے میں
جنبش امواج سے نادار مے کش کا ضمیر
احسان دانش کا اصل نام قاضی احسان الحق تھا اور احسان تخلص تھا۔ ان کے والد قاضی دانش علی باغ پت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے. ان کے پاس اچھی خاصی جائیداد بھی تھی لیکن آہستہ آہستہ سب ختم ہوگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں مزدوری کرنی پڑی۔ احسان کی تعلیم کا مسئلہ سامنے تھا۔ جب وہ چوتھی جماعت میں آئے تو ان کی کتابوں کے لئے گھر کے برتن بھی بیچنے پڑے۔ تعلیم جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہوگیا اور آخرکار یہ بھی اپنے والد کے ساتھ مزدوری کرنے لگے۔ بعد ازاں میونسپلٹی میں چپراسی ہوگئے لیکن افسروں سے ان کی بنی نہیں، لہٰذا نوکری چھوڑ کر لاہور چلے آئے اور یہاں بھی محنت و مشقت اور مزدوری کرنے لگے۔ خصوصاً عمارت سازی کے مزدوروں کے ساتھ انہیں کام کرنا پڑا۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ:۔ ’’علاوہ دیگرعمارتوں کے دیال سنگھ کالج اور پنجاب یونیورسٹی کے دفتر پر مزدوری کرنے کا مجھ کو فخر ہے۔
ان حالات میں بھی انہوں نے کتابوں سے اپنا رشتہ نہیں توڑا اور جو وقت بھی ملتا کتب بینی میں صرف کرتے۔ کچھ عرصے کے بعد وہ ایک سیرگاہ میں چوکیدار ہوگئے۔ اس کے بعد ریلوے کے دفتر کے چپراسی۔ یہ نوکری بھی راس نہ آئی تو گورنمنٹ ہاؤس میں باغبانی کرنے لگے۔ پھر ان تمام الجھنوں سے الگ ہو کر گیلانی بک ڈپو میں بیس روپئے ماہوار پر ملازمت شروع کی۔ اپنا ذاتی کتب خانہ بھی قائم کیا جو ’’مکتبہ دانش‘‘ کے نام سے لاہور کے محلہ مزنگ میں تھا۔
احسان دانش اس وقت شاعری کر رہے تھے جب وہ ریلوے کے دفتر میں چپراسی تھے۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ انہوں نے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا جو بھی شاعری صلاحیت تھی وہ کتب بینی سے پیداہوئی
احسان دانش ایک غیر معمولی لفظ ساز تھے جن کی ادبی صلاحیتوں نے اردو زبان کے شائقین کی نسلوں کے دل و دماغ کو موہ لیا۔ زبان پر ان کی مہارت، زندگی کے بارے میں ان کے منفرد نقطہ نظر کے ساتھ، ایسے کاموں کے لیے تیار کرنے کی اجازت دی جو گہرے اور حیرت انگیز طور پر فکر انگیز تھے۔ دانش کی شاعری ان کے دل کی گہرائی سے خاصی تھی، جس میں اکثر پیچیدہ جذبات اور موضوعات کو تلاش کیا جاتا تھے جو ان کے قارئین سے متعلق تھے۔ دوسری طرف، انھوں نے نظموں میں سماجی مسائل پر روشنی ڈالنے کے لیے مزاح اور طنز کا استعمال کیا۔ اردو ادب میں دانش کی خدمات صرف ان کی تحریر تک محدود نہیں تھیں۔ وہ ترقی پسند مصنفین کی تحریک میں بھی ایک نمایاں شخصیت تھے، جس نے ادب کو سماجی تبدیلی کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ تحریک کے لیے ان کی لگن اور اپنی تحریر کو مثبت تبدیلی لانے کے لیے استعمال کرنے کے لیے ان کی غیر متزلزل عزم نے انھیں ادبی دنیا میں ایک محبوب اور قابل احترام شخصیت بنا دیا۔ 22 مارچ 1982 کو ان کے انتقال کے بعد بھی احسان دانش کی میراث دنیا بھر کے قارئین کو متاثر اور مسحور کر رہی ہے۔ ان کے الفاظ ان لوگوں کے دل و دماغ کو چھوتے رہتے ہیں جو زندگی کی پیچیدگیوں اور انسانی تجربے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ وہ اردو ادب کی سب سے گہری اور پائیدار ادبی شخصیات میں سے ایک ہیں۔
احسان دانش ایک ترقی پسند شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ ترقی پسند حضرات انہیں اپنے زمرے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دراصل احسان دانش بھی ویسے ہی رومانی تصورات رکھتے ہیں جو ترقی پسندوں کی روش رہی ہے۔ چانچہ ان کا ذہن بھی انقلابی ہے۔ طبقاتی کشمکش سے بیزار، مروجہ نظام حکومت سے متنفر اور عدم مساوات سے دکھی نظر آتے ہیں۔ احسان برابری اور بھائی چارگی کی تلقین کرتے ہیں۔ گویا ان کی نگاہ میں شعروادب زندگی سے جوڑنے کا نام ہے لیکن ان تمام امور کے باوجود احسان شاعری کی موسیقی سے ہمکنار رکھنے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے یہاں بے ساختگی کے ساتھ ساتھ نغمگی اور ترنم کا احساس ہوتا ہے۔
احسان دانش نے شخصی مرثیے بھی لکھے ہیں۔ خصوصاً تاجور نجیب آبادی کے بیٹوں کی وفات پر ان کا مرثیہ بڑا پراثر ہے۔ احسان دانش کی تخلیقات میں ’’نوائے کارگراں‘‘، ’’چراغ آتش خاموش‘‘، ’’جادہ نو‘‘، ’’زخم مرہم‘‘، ’’مقامات‘‘، ’’گورستان‘‘، ’’شیرازہ‘‘ ، ’’لغات الاصلاح‘‘، ’’دستوراردو‘‘، ’’خضرعروض‘‘، ’’روشنی‘‘ اور ’’طبقات‘‘ اہم ہیں۔
رہتا نہیں انسان تو مٹ جاتا ہے غم بھی
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی
احسان دانش کی تصانیف
ابلاغ دانش , تشریح غالب , آواز سے الفاظ تک , فصل سلاسل, زنجیر بحران , ابر نیسان , میراث مومن , اردو مترادفات , درد زندگی , حدیث ادب , لغت الاصلاح , نفیر فطرت
احسان دانش کی چند دو سطری شاعری
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے
کس کس کی زباں روکنے جاؤں تری خاطر
کس کس کی تباہی میں ترا ہاتھ نہیں ہے
ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب
ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو
رات ہے برسات ہے مسجد میں روشن ہے چراغ
پڑ رہی ہے روشنی بھیگی ہوئی دیوار پر
جیسے اک بیوہ کے آنسو ڈوبتے سورج کے وقت
تھم گئے ہوں بہتے بہتے چمپئی رخسار
نظم
یہ کھلا عقدہ جہاں ہنگامہ زار مرگ ہے
عرش سے تا فرش بحر بے کنار مرگ ہے
شمع محفل کے لیے ہے موت دامان نسیم
روح گل کو موت کا پیغام پرواز شمیم
بے قراری چھین لی جائے تو ہے پیارے کی موت
چھوڑ کر گردش کو رک جائے تو سیارے کی موت
ذرے ذرے میں نمایاں موت کی تصویر ہے
لیکن اس تصویر میں گنجائش تقریر ہے
موت ہی جب تیرگی ہے موت ہی تابندگی
زندگی ہے نام کس شے کا کہاں ہے زندگی
رنگ تہذیب و تمدن کے شناسا ہم بھی ہیں
صورت آئینہ مرہون تماشا ہم بھی ہیں
حال و مستقبل کا کیا ہم کو سبق دیتے ہیں آپ
اس قدر تو واقف امروز و فردا ہم بھی ہیں
بادل نا خواستہ ہنستے ہیں دنیا کے لئے
ورنہ سچ یہ ہے پشیمان تمنا ہم بھی ہیں
کچھ سفینے ہیں کہ طوفاں سے ہے جن کا ساز باز
دیکھنے والوں میں اک بیرون دریا ہم بھی ہیں
دیکھنا ہے دیکھ لو اٹھتی ہوئی محفل کا رنگ
صبح کے بجھتے چراغوں کا سنبھالا ہم بھی ہیں
کاغذی ملبوس میں ابھری ہے ہر شکل حیات
ریت کی چادر پہ اک نقش کف پا ہم بھی ہیں
جا بہ جا بکھرے نظر آتے ہیں آثار قدیم
پی گئیں جس کو گزر گاہیں وہ دریا ہم بھی ہیں
اس حرم کی زیب و زینت کو خدا رکھے مگر
مجرمان عہد و پیمان کلیسا ہم بھی ہیں
ہم سے گونجا ہے عدم آباد کا دشت سکوت
عالم ارواح کا پہلا دھماکا ہم بھی ہیں
ہم جب اٹھ جائیں گے یہ عقدہ بھی حل ہو جائے گا
رونق محفل چراغوں کے علاوہ ہم بھی ہیں
خاک کیوں ہوتا نہیں جل کر حصار آب و گل
یہ اگر سچ ہے ترے جلووں کا پردہ ہم بھی ہیں
ہم پہ جانے کون سا طوفان تھوپا جائے گا
جانے کس تعزیر کی خاطر گوارا ہم بھی ہیں
یہ سر فہرست اور احسان دانشؔ شادباش
مجرموں میں آپ کے نزدیک گویا ہم بھی ہیں