“Zindagi” is a unique novel in the world of Urdu literature as no other novel has been written on its subject matter to date. The author has made life after death his theme and the plot of the novel revolves around the world of the afterlife and its surroundings.

Chaudhry Afzal Haq completed the novel during his imprisonment in the 1930s. He was not only a political figure but also a complete literary genius. His novel “Zindagi” is a shining star in the sky of Urdu literature.

Professor Hamid Ahmad Khan wrote in his book “Mashmoolat-e-Kulyat-e-Afzal” about the merits and charm of this book, expressing the desire that Chaudhry Afzal Haq should once again offer himself for imprisonment so that another masterpiece of the same caliber could be written by a literary genius of the country.

To call “Zindagi” simply a novel or short story would be an injustice to Chaudhry Afzal Haq. It is a collection of different images and the various symbols of his every metaphor can be discerned through close study of the text. From the style point of view, if we talk about life, it is a story of a servant of humanity told in conversation with pure souls in the world of the afterlife. It is a message that after reading, it becomes clear that sacrificing one’s life for a noble cause is not regrettable.

As “Zindagi” was written during the British era of oppression, there is a correlation to the same theme in a long story, “The Teacher’s Story”. In that story too, the same message of sacrificing one’s life for a noble cause resonates against the backdrop of British oppression.


زندگی اپنی نوعیت کے اعتبار سے وہ واحد ناول ہے کہ جس موضوع پر پہلے اور آج تک کوئی ناول دستیاب نہیں ہوا. موصوف نے مرنے کے بعد کی زندگی کو اپنا موضوع بنایا ہے. زندگی کا پلاٹ عالم برزخ اور اس کے اردگرد و مابعد کے عنوانات سے موصوم ہے 

چوہدری افضل حق کے 1930ء کی دہائی میں اسیری کے دوران اس ناول کو مکمل کیا. چوہدری افضل حق ایک سیاسی رہمنا ہونے کے ساتھ ساتھ باکمال ادیب بھی تھے. ان کا ناول زندگی اردو ادب کے آسمان پر چمکتا ہوا ستارہ ہے. زندگی کے بارے میں پروفیسر حمید احمد خان نے اپنی کتاب “مشمولاتِ   کلیاتِ افضل” میں لکھا

اس کتاب کی متعدد خوبیوں اور اچھوتے پن پر نظر جاتی ہے تو یہ آرزو کرنے کو جی چاہتا ہے کہ چودھری افضل حق ایک بار پھر اپنے آپ کو اسیری کے لیے پیش کریں تاکہ اس قسم کی ایک اور تصنیف اہلِ ملک کے ہاتھوں میں ہو

“زندگی” کو محض ناول یا افسانہ کہنا چوہدری افضل حق کے ساتھ ظلم ہو گا۔ یہ ایک ایسا مجموعہ ہے کہ جس میں مختلف تصویریں اور ان تصویروں کے مختلف نقوش بکھرے نظر آتے ہیں. اگر اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو افضل حق کی ہر تمثیل کے پیرائے میں مقصدیت نظر آتی ہے. اگر اسلوب کے اعتبار کے زندگی کی بات کی جائے تو عالمِ ارواح میں پاک روحوں سے گفتگو کے ضمن میں ایک خادم خلق کی کہانی ایک ایسا پیغام ہے کہ جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر بلند مقصد کے لیے اپنی جان قربان کرنی پڑے تو کوئی دریغ نہ ہو. چونکہ یہ تصنیف انگریز دور کے ظلم و ستم کے دور میں لکھی گئی تو اس تناظر میں ایک طویل کہانی “معلم کی کہانی” میں بھی یہ مقصدیت چھلکتی ہے کہ انگریزوں کی غلامی کے جوتے اتار پھینکنے کے لئے ہندوستانیوں کو عزم و ہمت اور بلند مقصدیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ آزادی سے سانس لے سکیں 

مجموعی طور پر زندگی اردو ادب کا شاہکار ہے جسے چوہدری افضل حق نے اسیری کے دوران لکھا جس کی کہانیوں میں رچاؤ، ربط، مابعدیت، مقصدیت اور بلند خیال نظر آتا ہے. زندگی کے اسلوب میں مرصع کاری، خطیبانہ انداز، زورِ بیان، اختصار و بلاغت، منظر نگاری، فضا بندی، تمثیلی انداز اور رعایتِ لفظی خوب چھلکتی ہے. اور یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ زندگی دور حاضر میں اپنے صحتِ خیال اور پاکیزگی و سنجیدگی کی وجہ سے اکثر کتب پر فوقیت رکھتی ہے. اگر آپ اسے پڑھیں تو یقین مانیے ایسی کتاب آپ نے پہلے کبھی نہیں پڑھی ہوگی


This Book is available at kitabmela

For Free PDF Download Click Here

Share this with your friends