ماں کا عالمی دن ہر سال مختلف ممالک میں مختلف تواریخ میں منایا جاتا ہے ۔ عالمی طور پر اس دن کی کوئی متفقہ تاریخ طے نہیں ہے۔پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے۔ جبکہ یہی دن دیگر ممالک میں جنوری، مارچ، نومبر یا اکتوبر میں منایا جاتا ہے۔ ماؤں کے عالمی دن کو منانے کا مقصد اپنی والدہ کی اہمیت کو اجاگر کرنا، ان کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنا، انہیں خوشی دینا اور ان پر اپنا مال و زر خرچ کرنا ہے۔ ماؤں کا عالمی دن پورپین ممالک میں مئی کے دوسرے اتوار کو بہت عقیدت اور جوش و خروش سے منایا جاتا ہے جبکہ عرب کے اکثر ممالک میں یہ دن 21 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ اس کو منانے کا دن چاہے جو بھی مگر یہ بات مشترک پائی جاتی ہے کہ اس دن ماؤں کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔
سوشل میڈیا پر ہر سال کی طرح لوگ دو طبقوں میں تقسیم نظرآتے ہیں، ایک طبقہ وہ ہے جو اس دن کو ماﺅں کی عظمت کے لیے اہم قرار دیتا ہے جبکہ دوسرے طبقے کے مطابق ماﺅں سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے ایک دن کافی نہیں ہے بلکہ سال کا ہر دن ہے۔ماں کی عظمت اور اس کی قربانیوں سے کوئی بھی انسان، مذہب، قوم اور فرقہ انکار نہیں کر سکتا، اس عظیم ہستی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن خلوص و محبت سے منایا جا رہا ہے۔ ویسے تو ماں کے لیے سال کا ہر دن ہی ہوتا ہے لیکن خصوصی طور پر ‘مدرز ڈے’ یعنی ماؤں کا عالمی دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے جس میں بچے اپنی والدہ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں تحائف اور ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اس وقت ’ماں تجھے سلام‘، مدرز ڈے، مدرز ڈے اسپیشل ہیش ٹیگز بھی ٹاپ ٹرینڈز ہیں۔
سوشل میڈیا پر صارفین سمیت سیاسی، سماجی اور شوبز شخصیات غرض کے ہر کوئی ‘مدزر ڈے’ مناتے ہوئے اپنی والدہ کے لیے جذبات کا اظہار کر رہا ہے اور ان کے ساتھ لی گئی یادگار تصویر شیئر کررہا ہے۔
اس دن کو مناتے ہوئے کاش ہمارے ذہنوں میں ماؤں کے حقوق بھی رہیں جو سارا سال ہی پورے کرنا ہماری ذمہ داری ہیں جن میں ماؤں کا حق مقدم رکھنا، ان کی خدمت کرنا، ان کا کہا ماننا، ان کی مالی معاونت کرنا، ان سے حسن سلوک سے پیش آنا، ان کے سامنے ادب سے بات کرنا، مار پیٹ سے اجتناب کرنا، ان کے توبہ و استغفار کرنا، ان کا شکریہ ادا کرنا، گلے شکوے سے پرہیز کرنا اور ان کی تمام تر ضروریات کا خیال کرنا وغیرہ۔ قرآن و حدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک روا رکھنے سے متعلق متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا: “اور والدین کےساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ”۔ اور حدیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کےپاس آیا اور عرض کیا کہ کون زیادہ حقدار ہے کہ جس کے ساتھ میں حسن سلوک سے پیش آؤں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : تیری ماں۔ اس نے دوبارہ پوچھا کہ ماں کے بعد؟ تو آپ ﷺ نے جواب دیا تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا اس کےبعد؟ پھر بھی آپ ﷺ نے جواب دیا کہ تیری ماں۔ اس نے وہی سوال پھر پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تیرا والد۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا فرمان
:حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریا فت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے ؟ تو انھوں نے فرما یا: تو ان پر اپنا مال خرچ کر ، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر ، ہاں اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فر ما یا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھا ڑو، کہیں کپڑوں کا غبا ر اور دھول ان کو لگ نہ جا ئے۔
بڑھاپے میں حسنِ سلوک کا خصوصی حکم
اللہ تعالی نے خاص طور سے والدین کے پڑھاپے کو ذکر فر ما کر ارشاد فر ما یا کہ اگر ان میں کوئی ایک، یا دونوں تیری ز ند گی میں پڑھا پے کو پہنچ جا ئیں تو ان کو ”اف “بھی مت کہنا اور نہ ان سے جھڑک کر با ت کر نا ۔ حضرت تھا نوی رحمہ اللہ نے بیا ن القرآن میں ”اف “ کا تر جمہ ”ہوں “ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ”ہوں “بھی مت کہنا ۔ اللہ رب العزت نے بڑھا پے کی حالت کو خا ص طور سے اس لیے ذکر فر ما یا کہ والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ” ہوں“ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہو تا ہے؛ البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اور اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیا دہ اندیشہ رہتا ہے ۔،پھر بڑھا پے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑا پن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اس کو برداشت کر کے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھوں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالی نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر با ت کر نا تو دور کی با ت ہے، ان کو” اف“ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناگواری کا اظہا ر بھی مت کر نا ۔
امیرُالمؤمنین حضرت ابوبکر صِدِّیْق کو عتیق کہنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ آپ کی والِدہ کاکوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا ، جب آپ کی وِلادت ہوئی توآپ کی والدہ آپ کو لے کر بیتُ اللہ شریف گئیں اورگِڑگِڑا کر یوں دُعا مانگی : اے میرے پَرْوَرْدگار ! اگر میرا یہ بیٹا مَوت سے آزاد ہے تو یہ مجھے عطافرمادے۔اس کے بعدآپ کو عَتِیْق کہا جانے لگا۔
اگرچہ ریاستہائے متحدہ کی اس تعطیل کو کچھ دوسرے ممالک نے بھی اپنایا تھا، موجودہ تقریبات، مختلف تاریخوں پر منعقد کی جاتی ہیں، ماں کے احترام کو “مدر ڈے” کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جیسے برطانیہ میں مدرنگ سنڈے یونان میں، مشرقی آرتھوڈوکس یسوع مسیح کو مندر میں پیش کرنے کا جشن (جولین کیلنڈر کے 2 فروری)۔ یونان میں سیکولر اور مذہبی مدر ڈے دونوں ہیں۔ مدرنگ سنڈے کو اکثر “مدر ڈے” کہا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک غیر متعلقہ جشن ہے۔
کچھ ممالک میں، منظور شدہ تاریخ اکثریتی مذہب کے لیے ایک اہم ہے، جیسے کیتھولک ممالک میں ورجن میری ڈے۔ دوسرے ممالک نے تاریخی اہمیت کے ساتھ تاریخ کا انتخاب کیا۔ مثال کے طور پر، بولیویا کا مدرز ڈے ایک مقررہ تاریخ ہے، جو اس جنگ کی یاد میں منایا جاتا ہے جس میں خواتین نے اپنے بچوں کے دفاع کے لیے حصہ لیا تھا
کچھ ممالک، جیسے روس، یومِ ماں کی بجائے خواتین کا عالمی دن مناتے ہیں یا صرف دونوں چھٹیاں مناتے ہیں، جو یوکرین میں رواج ہے۔ کرغزستان نے حال ہی میں “یوم مادر” متعارف کرایا ہے، لیکن “سال بہ سال عالمی یوم خواتین کی حیثیت میں یقیناً اضافہ ہو رہا ہے”۔
جدید دور کی با ت کریں تو سب سے پہلے مد رز ڈے 1908ء میں اینا جاروِس نے اپنی ماں کی یاد میں گریفٹن، ویسٹ ورجینیا کےاینڈریو میتھڈسٹ چرچ میں منایا، جہاں آج انٹرنیشنل مدرز ڈے کی علامت کے طور پر ایک مزار موجود ہے۔ اینا جاروِس نے امریکا میں مدرز ڈے منانے کی کمپیئن 1905ء میںہی شروع کردی تھی، اسی سال ان کی ماں اینا ریوس کاانتقال ہوا تھا۔ اینا جاروِس امن کی علمبردا ر ایک ایکٹیوسٹ تھیں، جو امریکن سول وار کے دوران زخمی فوجیوں کی تیمار داری اور مرہم پٹی کرتی تھیں۔
انھوں نے مدرز ڈے ورک کلب بھی قائم کیا تاکہ لوگوں تک صحت عامہ کے مسائل کی آگاہی پہنچا سکیں۔ اینا جاروِس کا مقصد اپنی ماں کو عزت واحترام دلوانا اور کم از کم ایک دن مائوں کے نام کروانا تھا، جو اپنی ساری زندگی بچوں کی پرورش اورانہیں عمدہ شہری بنانے میں تیاگ دیتی ہیں۔ اینا کا یقین تھا کہ ماں ہی وہ ہستی ہے جو آپ کے لیے اس دنیا میں آپ سے زیادہ کوششیں کرتی ہے۔
دنیا بھر میں اس وقت نئی نسل میڈیا کے منفی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہے لیکن یہاں بھی ایک تعلیم یافتہ ماں بڑی خوبصورتی کے ساتھ میڈیا کو معلومات اور انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بنادیتی ہے۔ وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے کہ کس میڈیم کا کب اور کس طرح استعمال کرنا ہے اور بچے کے لیے بہترین اسکرین ٹائم کیا ہوسکتا ہے۔
اگر مائیں پڑھی لکھی، باشعور اور سمجھدار ہوں گی تب ہی ایک معاشرہ ترقی کی جانب گامزن ہوسکتا ہے کیونکہ ایک باشعور عورت ہی وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت درست خطوط پر کر سکتی ہے۔ وہ بچے کو اچھے اور برے کی تمیز سکھاتے ہوئے معاشرے کا مفید شہری بناسکتی ہے۔