اے چاند یہاں نہ نکلا کر

بے نام سے سپنے دیکھا کر

یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے

اس دیس میں اندھے حاکم ہیں

نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں

نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں

ہے یہاں پہ کاروبار بہت

اس دیس میں گردے بکتے ہیں

کچھ لوگ ہیں عالی شان بہت

اور کچھ کا مقصد روٹی ہے

وہ کہتے ہیں سب اچھا ہے

مغرب کا راج ہی سچا ہے

یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

اے چاند یہاں نہ نکلا کر

حبیب جالب.

مشرق کے انقلابی شاعر کہلانے والے حبیب احمد جوکہ حبیب جالبؔ کے نام سے جانے جاتے ہیں 1993 میں مارچ کی  12 تاریخ کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے. حبیب جالبؔ ایک نڈر بے باک شاعر تھے. انھوں اپنی ساری زندگی فقیری میں گزاری لیکن وہ اپنی سوچ اور تخیل کے بے تاج بادشاہ تھے. انھوں نے اپنی زندگانی کے اُس دور میں سماراجوں کی ظلم کے خلاف وہ اشعار لکھے جن میں آج کے دور کی جھلک بھی نظر آتی ہے. ان کی سیاسی شاعری آج بھی ایک عام آدمی کو ظلم کے خلاف کی بغاوت کے لیے اکساتی ہے.

نہ سوشل میڈیا کا دور نہ خیالات کی اونچی اُڑان لیکن ایک صدی کے بعد بھی حبیب جالب کی شاعری ان کے الفاظ حکومتِ وقت کے منہ پہ کھلا طمانچہ ہیں.

حبیب جالب “ہاری تحریک” اے این پی کے رکن رہے اور اسی تحریک کے رکن کی حثییت سے گرفتاری کا سامنا بھی کرنا پڑا. حبیب جالب نے اپنی پہلی نظم دستور ایوب خان کے خلاف لکھی.

دیپ جس کا محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

ایسے دستور کو صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے

میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

ظلم کی بات کو جہل کی رات کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو

جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو

چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو

اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں

اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں

چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں

تم نہیں چارہ گر کوئی مانے یا نہ مانے

میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

اس نظم کے بعد جالبؔ عوامی اور انقلابی شاعر کے طور پہ پہچانے جانے لگے.عوام ان کے عشق میں مبتلا ہو گئ. ایوب خان کی جگہ جب جرنل یخیی خان نے اقتدار سنبھالا تو انہیں کچھ اس انداز میں مخاطب کیا. 

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اْس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا.

بے نظیر بھٹو کے دور میں حبیب جالبؔ کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی ؎

وہی حالات ہیں فقیروں کے

دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض

پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

نواز شریف کا پہلا دورِ حکومت شروع ہوا تو نواز شریف نے قوم کے لیے اپنی جان دے دینے کا مشہور بیان دیا جس پہ جالبؔ نے کہا.

نہ جان دے دو، نہ دل دے دو

بس اپنی ایک مِل دے دو

زیاں جو کرچکے ہو قوم کا

تم اس کا بل دے دو

مغرب حالات کے تناظر میں پیش کی گئی ان کی نظم”وزیرانِ کرم ” آج پاکستان کے سیاسی حالات کی بھی عکاسی کرتی ہے.

قوم کی خاطراسمبلی میں یہ مرجاتے بھی ہی

قوت بازو سے اپنی بات منواتے بھی ہیں

گالیاں دیتے بھی ہیں اور گالیاں کھاتے بھی ہیں

یہ وطن کی آبرو ہیں،

کیجئے ان کوسلام

یہ وزیرانِ کرام

یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا

جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے۔

کسی بھی حکومت کے سامنے بے باک کھڑے ہو جانے والے شاعر کو آخر کار بیماریوں نے آ لیا.

اپنی بیماری کے دور میں بھی جالبؔ سے رہا نہ گیا. اپنے آخری وقت میں جالب نے کچھ یوں ارشاد فرمایا.

اب رہیں چین سے بے درد زمانے والے

سو گئے خواب سے لوگوں کو جگانے والے.

24 مارچ 1928ء کو ہوشیار پور انڈیا میں پیدا ہونے والے حبیب احمد 12مارچ 1993 میں لاہور میں ہم سے بچھڑ گئے.

مدتیں ہو گئیں خطا کرتے

شرم آتی ہے اب دعا کرتے

چاند تارے بھی ان کا اے جالبؔ

تھرتھراتے ہیں سامنا کرتے

آپ کو نگار ایوارڈ ، انجمن تحفظ حقوق نسواں ایوارڈ ، گریجویٹ ایوارڈ ، حسرت موہانی ایوارڈ ، جمہوریت ایوارڈ ، سوھن سنگھ جوش ایوارڈ ، قومی فلم ایوارڈ ، نگار ایوارڈ اور ، نشان امتیاز بعد از مرگ حکومت پاکستان نے عطا کیا۔

حبیب جالب کامجموعہ ”سر مقتل“ ان کی سیاسی شاعری ہے۔ ایوب خان کے دور میں یہ مجموعہ چھپا اور چھپتے ہی ضبط کر لیا گیا ۔ اس سے جالبؔ اور مشہور ہوئے ۔ بہرحال حبیب جالبؔ کے جو مجموعے منظر عام پر آئے ، ان میں برگ آوارہ ، سرمقتل ، عہد ستم ، ذکر بہتے خون کا ، گوشے میں قفس کے ، عہد سزا ، حرف حق ، صراط مستقیم ۔ گنبدِ بیدار ، احادِ ستم اس شہر خرابی میں ، جالب نامہ ، حرف سردار ، کلیات حبیب جالبؔ اور فلمی گیتوں کا مجموعہ ’ رقصِ زنجیر‘ شامل ہے.

میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اجالا

مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا

مجھے فکر امن عالم تجھے اپنی ذات کا غم

میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا

حبیب جالبؔ

Share this with your friends