ہاں میں طوائف ہوں

طوائف کا لفظ سنتے ہی ہمارے خیالات پراگندہ ہونے لگتے ہیں، دماغ میں گندگی کے جھکڑ چلنے لگتے ہیں، بعد شرفا تو فرط اضطراب میں بعض نادر القابات سے بہی نوازتے ہیں، نوجوان نجی محفل میں دوستوں کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے اورچٹکلے سناتے ہیں مگر ان کا انسان ہونا بہت کم لوگوں کو نظر آتا ہے۔

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی عام انسانوں کی طرح معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتا ہے کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کیسے ایک بچی یا بچہ ڈاکٹر، انجینیراور بزنس مین بن جاتا ہے اور کوئی چور، ڈاکو لٹیرا بن جاتا ہے اور کوئی عزتوں کا سوداگر؟؟ ایسا کیوں؟؟

میں نے کھوج لگانے کا فیصلہ کیا، کتابوں کے الفاظ پلے نا پڑے توہاتھ باندھ کر اپنے محلے کے دانشوروں اور بزرگوں کے پیچھے چل پڑا مگر خاطر خواہ افاقہ نا ہوا۔ ایک صاحب نے تو یہاں تک کہ دیا کہ اگر میں نے اپنے بے ہودہ سوال پوچھنے ترک نا کیے تو میرے ابا حضور سے میری بے راہ روی کی شکایت کریں گے کہ بچہ ہاتھ سے نکل گیا ہے، بس ابا جان کا ذکر سنتے ہی میری تو سٹی ہی گم ہوگئی اور آنکھوں کے سامنے چھترول کا منظر گھوم گیا، پھر کیا تھا میں اپنے سوالوں پر چار لفظ بھیجے اور اپنی زندگی میں مصروف ہوگیا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
وہ سوموار کا دن تھا اور مجھے دوست کی شادی میں شرکت کے لیے لاہور جانا تھا۔ وہ ٹرمینل پر کھڑی تھی جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا۔ اسکا چہرہ تاثرات سے عاری تھا اور اسکی سیٹ میرے ساتھ ہی تھی۔ ’’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ پہلا سوال اس نے پوچھا۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید میں غلط ٹرین میں بیٹھ گیا تھا جو کہ لاہور نہیں بلکہ چیچوکی ملیا جارہی تھی۔ ’’شاید یہ ٹرین لاہور جارہی ہے‘‘ میں نے جواب دیا تو وہ شرمندہ ہوگئی۔

پھر باتوں کا سلسلہ چلا تو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اب کی بار چار گھنٹوں کے لیے میری ہمسفر وہ تھی کہ جسے میں نا تو بہن کہہ سکتا تھا اور نا دوست اور نا کزن نا پھوپھو نا تائی اور خالہ کہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے گھبرا کر دائیں بائیں دیکھا اور سیٹ سے اٹھنے کی ناکام کوشش کی جسے اس نے بھانپ لیا اور کہا ’’بیٹھ جائیے میں آپ کو کھا نہیں جاؤں گی‘‘۔

پھر اس کی زندگی کے گہرے اندھیرے الفاظ بن کر میری سماعتوں میں گونجنے لگے۔ پھر زندگی میں پہلی بار مجھے پتہ چلا کہ جب گھروں میں رشتوں کا تقدس ختم ہوجائے، جب احساس کمتری کی بارشوں میں آپ کے کچے گھروں کی بنیاد ہلنے لگے جب لفظ ’’غریب‘‘ آپ کی ننھی خواہشوں کا گلہ گھونٹنے لگے، پھر خواہشات کے پلڑے میں جسم بکنے لگتے ہیں۔ پھر قائد اعظم کی تصویر والے کاغذ پر رقاصہ کے پاؤں دہمال ڈالنے لگتے ہیں، پھر وہ صنف نازک احساسات سے عاری ایک جسم بن جاتا ہے۔ خواہشات کا جسم، جس پر کوئی نصیحت کوئی تبلیغ اثر نہیں کرتی۔ جی ہاں قارئین یہ تو ہوگا ہی، جب آپ کاغذ کی چھتری سے موسلادھار بارش کو روکنے کی کوشش کریں گے تو پھر ایسا ہی ہوگا۔

’’ہاں! میں طوائف ہوں مگر مجھے یہ نام تمہارے معاشرے نے بخشا ہے، وہ معاشرہ جس نے مجھے عورت ہونے کی سزا دی۔ جب میں پیدا ہوئی تو میرے باپ نے میرے سر پر پیار سے بوسہ دینے کی بجائے میری ماں کو بیٹی پیدا کرنے کا طعنہ دیا، جس نے اسکول جانے کی عمر میں ہاتھ میں جھاڑو تھما دیا، جس نے جوانی میں نئے لباس کے بجائے امیر لوگوں کی بیٹیوں کے اترے ہوئے کپڑے پہننے پر مجبور کردیا اور بابو جی تمہیں پتہ ہے بھوک کیا ہوتی ہے؟ بابو جی جسے کبھی بھوک لگی ہی نہ ہو، اُسے کوئی کیسے سمجھا سکتا ہے کہ بھوک کیا ہے؟ اور جسے لگتی ہے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ اس کا تو اندر بھوک بھوک کا ورد کرتا ہے‘‘ اتنا کہہ کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گئی پھر آہستہ سے بولی

’’ہاں میں طوائف ہوں ۔۔۔۔ ہاں میں ۔۔۔۔ اس کی آواز دب سی گئی، آپ کو پورا حق ہے مجھ سے نفرت کرنے کا، میرے ساتھ نا بیٹھنے کا مگر نفرت کرنے سے پہلے یہ سوچیے کہ مجھے طوائف کس نے بنایا؟ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔

اس کی آنکھوں میں مجھے اپنا عکس دکھائی دیا جو دہندلا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چند قطرے گرے، سامنے ٹرمینل کی روشنیاں نظر آنا شروع ہوگئی تھیں اور میری زندگی کا عجیب و غریب سفر ختم ہونے والا تھا۔ لوگ ٹرین میں سے اپنا سامان اتار رہے تھے اس نے بھی اپنا سامان اٹھایا۔ ایک آخری نظر مجھ پر ڈالی اور بے تحاشا چبھتے ہوئے سوال چھوڑ کر چل دی، ایسے سوال جن کے جواب مجھے تلاش کرنے ہیں۔۔ آپ کو تلاش کرنے ہیں۔۔۔

 

Share this with your friends