جب تک انسان اچھے رہنمائی اصول نہیں سیکھتا وہ ایک اچھا لیڈر نہیں بن سکتا
تعارف
اگر آپ کی آواز اچھی ہے لیکن آپ کے پاس معلومات کا خزانہ نہیں ہے تو آپ معاشرے کے اندر بیٹھ کر علم کے موتی تقسیم نہیں کر سکتے – اپنی خوبصورت تحریروں کو کتابوں کے اندر سجانے والے لوگ ہم تک علم پہنچانے والے لوگ کوئی عام شخصیت نہیں تھے
Pakistani Writers
علامہ اقبال٫ فیض احمد فیض ٫ جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے میں انقلاب لانے کی سعی کی۔ اگرآج کا زبوں حال معاشرہ ان کی کتب کا مطالعہ کرتا ہے تو یہ تعمیری کتب ان کی شخصیت کو تعمیری اور مثبت رنگ عطا کرتیں ۔
تاریخی پسِ منظر
علم اور علم سے محبت آگہی کے نئے در کھولتی ہے اور انسان کو انسانیت کی معراج تک پہنچا دیتی ہے، قرآن میں دعا کا ذکر ہے جس کا ترجمہ ہے کہ , اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما
Quran ancient Arabic sub saharan
دنیا کے پہلے انسان کو بھی علم کی بدولت فرشتوں پر فوقیت دی گئی اللہ تعالی نے جب قرآن اتارا تو اس کو بھی مختلف چیزوں جیسے چمڑے کپڑے اور بعد میں کاغذ پر لکھنے کا اہتمام کیا گیا، اور پھر حکم ہوا کہ اس کو پڑھو اور عمل کرو تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں نے قرآن اور دینی کتب کا مطالعہ کیا اور عمل کرنے کی سعی کی تو ان کے اندر علمی ذوق بیدار ہوا اور ان کوعلم کی نئی شاخوں کا ادراک حاصل ہوا ۔اعلمی ذوق اور علمی تحقیق کے جذبے کی وجہ سے کئی ہزار سال مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی۔
Ibn Sina
تاریخ اسلام میں اموی ،عباسی اور سپین کے خلفاء نے کتاب کلچر کے فروغ کی حد سے بڑھ کر سرپرستی کی، برصغیر میں نظام حیدرآباد نے ادب کے فروغ کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے ۔علی گڑھ یونیورسٹی ندوۃالعلماء، دارالمصنفین، اعظم گڑھ علم و ادب کے فروغ میں پیش پیش رہے
کتاب سے شکست
جب بھی مسلمانوں کو شکست دینے کا سوچا گیا تو سب سے پہلے ان کے عظیم ورثہ کو جلایا گیا تاکہ علم و شعور کا فروغ رک جائے جس کی مثال بغداد کی لائبریریاں ہیں جو کہ ہلاکو خان کے ہاتھوں تباہ ہو گئیں
Hlaku Khan Destroys Books
۔ سپین کی لائبریریاں یورپی حکمران لوٹ کر لے گئے اور ان کتابوں کا اپنی زبانوں میں ترجمہ کر کے اپنے ہاں علم و ادب کی شمعیں روشن کیں بر صغیر میں مسلمان بادشاہوں کے زوال کی وجہ بھی کتابوں سے دوری تھی۔
ہمارا معاشرہ اور کتاب
آج ہمارے معاشرے کی اخلاقی پسماندگی اور اخلاقی گراوٹ کی وجہ کتابوں سے دوری اور مطالعہ کا فقدان ہی ہے گھروں کے اندر بڑی بڑی الماریوں میں کتابوں کو سجا کر ضرور رکھا جاتا ہے لیکن ان پر پڑی دھول اس بات کی گواہ ہوتی ہے کہ سالوں سے ان کو استعمال نہیں کیا گیا حتیٰ کہ نوجوان نسل تلاوت قرآن کا اہتمام بھی نہیں کرتی دینی کتب کا مطالعہ تو دور کی بات ہے جن میں سبق آموز کہانیاں ہوتی تھیں
Books on Footpath
یہ نسل صرف کتابیں پڑھنے سے دور نہیں ہوئی بلکہ اپنی تاریخ کلچر اور علمی میدان میں نئی تحقیق و ترقی سے بھی محروم ہوگئی ہے ۔ دور حاضر کی ایجادات نے اور سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال نے بچوں کو نظر کی کمزوری کا شکار تو کیا ہی ہے سست اور کاہل بھی بنادیا ہے بچے بڑی بےدردی سے وقت کو ضائع کر رہے ہیں وہ اپنے دماغ کو تحقیقی کام میں خرچ کرنے کے بجائے موبائل کی اسکرین جو کچھ انہیں دکھاتی ہے اس کے تابع ہوتے جا رہے ہیں ان کے اندر حیاء، رشتوں کا احترام ،انسانیت کا احترام ،پاکیزہ خیالات اور ادب و آداب کا خاصا فقدان نظر آتا ہے آج کا معاشرہ اخلاقی برائیوں کا شکار ہوتا صاف نظر آ رہا ہے موبائل فون کلچر نے نوجوانوں کے دل و دماغ سن کر دیے ہیں ۔وہ اعصابی بیماریوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ۔اس معاملے میں والدین بھی شدید بے بسی کا شکار نظر آتے ہیں اولاد نافرمان ہوتی جارہی ہے یہ شکوہ والدین کی زبان سے سنائی دے رہا ہے بچوں نے موبائل فون کے ساتھ اپنی الگ دنیا بسا ئ ہوئی ہے جن میں وہ والدین کی دخل اندازی بھی برداشت نہیں کرتے کچھ والدین اس کو ترقی اور اسٹیٹس کا نشان سمجھتے ہوئے بچوں کو خود لاکھوں روپے کے گیجٹس فراہم کرتے ہیں اور پھر بچوں کی لاپرواہی اور نافرمانی کا رونا روتے نظر آتے ہیں ۔
لائبریریز کہاں کھو گئیں ؟
ایک وہ زمانہ تھا کہ معاشرے میں محلے کی سطح پر آنہ لائبریریاں قائم کی جاتی تھیں اور بچوں کے اندر شوق پیدا کیا جاتا تھا کتابوں کو کرایہ پر لے کر پڑھنے کیلئے ۔ محلہ لائبریریوں سے ایک آنہ ممبرشپ کے عوض کتابیں پڑھنے کے لئے کرایہ پر مل جاتی تھی اور اسکول اور کالج کی سطح پربھی لائبریریوں سے طالب علموں کو استفادہ کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی اب ان لائبریریوں کا وجود بھی ختم ہو چکا ہے حکومت بھی کتابوں کی ترویج و اشاعت میں دلچسپی نہیں لے رہی۔
Tweet about importance of book
یونیورسٹیوں کالجوں سکولوں کی لائبریریوں کو کتب خریدنے کے لئے گرانٹ جاری نہیں کرتی یا یہ گرانٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ علم و ادب کے فروغ کی سرپرستی کرے اگر حکومت کی سرپرستی حاصل ہو اور نوجوان کتاب کے مطالعے کی طرف راغب ہوں تو ان کے دل اور دماغ کو فرحت و روشنی نصیب ہو گی بلاشبہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے کتاب کا مطالعہ انسان کے لیے نئے دریچے کھولتا ہے
بقول گلزار
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماریوں کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں