تو خواتین کو اپنے لئے آزادی چاہیے
اس کے لئے ایک دن مخصوص کر دیا گیا کہ 8 مارچ کو خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں گی۔
کون سے حقوق ؟ وہ حقوق جو اللہ نے اس کو دے کر اس سے معتبر کیا ہے یا وہ حقوق جو وہ میرا جسم میری مرضی کے نام پر حاصل کرنا چاہتی ہے ۔اللہ نے عورت کو مرد کے گھر کی ملکہ بنایا ہے اور اس پر کوئی معاشی بوجھ بھی نہیں ڈالا بلکہ گھر کے آرام و سکون کے ساتھ ساتھ وراثت میں بھی حق دیا تو پھر وہ کونسی آزادی کون سے حقوق ہیں جن کے لئے عورت سڑک پر نکل کر نعرے لگا رہی ہے باقاعدہ جلسے منعقد کئے جاتے ہیں جن میں عورت کی تعریف سے متعلق تقریریں کرکے اس کے رتبے کو بلند کیا جاتا ہے۔
کیا عورت نہیں جانتی کہ ایک وہ دور تھا جب بیٹی کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیا جاتا تھا وراثت میں بھی حقدار نہیں تھی۔ بیوہ ہونے کی صورت میں الگ کوٹھڑی میں قید کردیا جاتا تھا۔ پھر رحمت اللعالمین آۓ اور عورت پر ہونے والا بدترین ظلم کا دور ختم ہوا ۔ اسلام نے عورت کو بیٹی کی صورت میں رحمت بنا کر بھیجا ماں کی صورت میں جنت اس کے قدموں تلے لاکر رکھ دی اس کو بری نگاہ کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے گھر کی چار دیواری میں عزت کے ساتھ رہنے کا حکم دیا مگر آج کی عورت اپنے وقار اور عزت کو داؤ پر لگا کر مغرب کی مادرپدر آزادی کے نام پر ہونے والی نام نہاد ترقی کی دوڑ میں شامل ہو چکی ہے
ہے آئینہ احتساب پر”
ڈالی جو میں نے ایک نگاہ
یکبارگی یہی سوچا
شاید کہ یہ وہ وجود سیاہ
نہ رہا ہو میرا
مگر کچھ غور و فکر سے
دل کا میل نظر آیا
اور پھر کھل گئی
روح کی سب عیاری بھی
” باطن کی مکاری بھی
مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کا نعرہ لگا کر آسائشیں پوری کرنے کے لئے گھر سے نکلنے والی عورت معاشرے میں کس طرح استحصال کا شکار ہے یہ خود عورت اچھی طرح جانتی ہے جہاں ملک میں عورتوں کو ان کے حقوق حاصل ہیں وہاں آج بھی ملک کے بہت سے علاقوں میں عورت پر ظلم و ستم جاری ہے۔ کبھی ہوس کے نام پر کبھی زمین کے نام پر کبھی جہیز کے نام پر عورت کی زندگی جہنم بنائی جاتی ہے ۔ لیکن ان ظلموں کے تدارک کے لیے ہمیں ان چند لبرل خواتین کی بے حیائی مہم کا حصہ بننے سے خود کو بچانا ہے عورت کو پردے میں رہ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہوگی نہ کہ بازاروں اور محفلوں کی زینت بن کر ذلت و رسوائی سمیٹے ۔
خواتین کا عالمی دن
اس کا آغاز 1908 میں نیویارک شہر سے ہوا جب 15000 خواتین نے کم گھنٹے کام ,بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے لئے مارچ کیا پھر یہ 1911 میں آسٹریا ڈنمارک ,جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں منایا گیا خواتین خاص طور پر اس دن جامنی، ہرا اور سفید رنگ پہنتی ہیں کئی ممالک میں خواتین کو آدھے دن کی چھٹی دی جاتی ہے خواتین کو اعلیٰ عہدے دیئے جاتے ہیں اور خواتین کی کھیلوں میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ اس اندھی تقلید میں ہم کہاں سے کہاں جا رہے ہیں اپنی اقداراور اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہیں نئی نسل کو بے راہ روی کا شکار بنایا جارہا ہے لڑکیوں کو یہی بتایا دی جا رہا ہے کہ تعلیم مکمل کرکے نوکری کرنی ہے۔ اور عورت خود کو گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد رکھنے کے لئے اور خود اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزارنے کا مقصد لے کر گھر سے باہر نکل رہی ہے ان سب کا نتیجہ طلاق کی شرح میں ہوتا ہوا اضافہ ہے ۔ ان کی اولادیں جو کہ نوکروں کے ہاتھوں میں پل رہی ہوتی ہیں جسمانی اور ذہنی استحصال کا شکار ہوکر معاشرے کے لیے ذہنی معذور لوگوں کی صورت میں سامنے آ رہی ہیں۔
اس بدلتے دور نے آج کی نسل کو نافرمان بنا دیا ہے عورتوں کو صرف استعمال کی چیز سمجھا جارہا ہے اور اس کی ذمہ دار خود عورت ہے
نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اگر چلیں تو عورت کو اپنا وقار قائم رکھتے ہوئے پردے میں رہ کر معاشی جدوجہد میں حصہ لینا چاہیے اور معاشرے کو بھی صرف دیواروں پر عورت کی تعریف میں اچھی اچھی لائنیں لکھ کر عالمی دن نہیں منانا چاہیے بلکہ حقیقت میں عورت کو عزت دے کر اس کی قدرکر کے ہی
کا حق پورا کیا جا سکتا ہے women,s Day
عورت ڈاکٹر، انجینئر، وکیل کھلاڑی استاد حتیٰ کہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی حاصل کر رہی ہے معاشرے کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ عورت کمزور نہیں اور عورت کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے مذہب نے ا سے بہت سے حقوق دے کر معتبر کر رکھا ہے اور وہ خود اس معتبری کو داؤ پر نہ ہی لگائے تو اچھا ہے
تیرے برملا تکلم سے نہ کسی کا دل ہو میلا
یہ نگر ہے آئینوں کا یہاں سانس لے سنبھل کر