زبان کی نوعیت اور اس کی تعریف میں ماہر لسانیات  اس بات پر متفق ہیں کہ زبان فطری اور بتدریج ارتقائی عمل کی حامل ہوتی ہے۔ اور احساسات اور جذبات کے اظہار کا ذریعہ بھی ۔

 لیکن زبان کی یہ تعریف تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی کیونکہ ہم اپنے خیالات و جذبات کا اظہار زبان کے علاوہ اپنی حرکات و سکنات سے بھی  کر سکتے ہیں ۔ زبان وہ ذریعہ ہے جس کی مدد سے انسان اپنے ماحول اور اپنی ذات کے تقاضے کے مطابق اظہار  کرتا ہے ۔ زبان میں  تغیر و تبدل کے آثار اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب مختلف قوموں میں مختلف نسل مختلف مذاہب کے غیر ملکی بادشاہ، تاجر یا علماء  کسی دوسرے ملک سے وارد ہوتے ہیں یہ لوگ اپنے آبائی وطن سے آکر دوسرے ملک کی مروجہ زبان میں اپنی مادری زبان کے الفاظ ،محاورات تشبیہات اور استعارات کو استعمال کرتے ہیں ۔ یہ لسانی تبدیلی ہمیشہ جاری رہتی ہے اور کوئی زبان کبھی بھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتی کیونکہ زبان وقت کے دھارے میں بہتی ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی نبی، پیغمبر، امام یا ولی پیدا ہوتا ہے تو جو وہ زبان اختیار کرتا ہے آہستہ آہستہ وہی زبان دیگر زبانوں اور بولیوں پر حاوی ہو جاتی ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مادری زبان چونکہ عربی تھی اس لیے عربی زبان بطور مذہبی زبان مفتوحہ ممالک کی زبانوں میں داخل ہوگی۔ گرونانک دیو نے پنجابی زبان کو اپنایا تو اہل پنجاب نے آپ کی تقلید میں پنجابی زبان میں ادبی نقش و نگار کے نمونے پیدا کیے ۔ اگر کسی غیر ملک کی اخلاقی ادبی مذہبی اور تاریخی کتب کسی ملک کے نصاب میں داخل ہوتی ہیں تو مروجہ زبان پر ان کا گہرا اثر ہوتا ہے ۔

 

ہندی زبان کی ترویج و ترقی

  دنیا کی زبانوں کا سب سے بڑا خاندان آریائی یا ہند یورپی ہے یورپ اور ایشیا کی بڑی زبانوں میں اردو اور ہندی کا شمار بھی ہوتا ہے ۔ ہندوستان کے اصل رہنے والے دراوڑ تھے اور دراوڑی زبان بولتے تھے ۔مگر آریاؤں کے غلبے کے بعد سنسکرت خاص طبقے کی زبان بن گئی ۔ جب گو تم بدھ اور مہابیر سواجی نے اپنے مذہب کی ترویج کی تو عوام ان کے طرزِ بیان کو پسند کرنے لگے تب تھوڑے فرق کے ساتھ جو زبانیں فروع پا نے لگیں ۔وہ پراکرت کہلائیں ۔ جلد ہی عوام ان کی ادبی حیثیت سے گبھرا کر ایک ملی جلی بولی بولنے لگے جسے اپ بھرنش کہتے تھے ۔ 800ء سے1000ء تک دوآبہ کی شواسینی اپ بھرنش تمام ہندوستان کی ادبی بولی بن گئ ۔ عربوں کے سندھ فتح کرنے کے بعد ملتان ادبی مرکز بن گیا جہاں اُردو کی تخم پاشی کی گئی  ۔  

جب غزنوی حکومت پنجاب پر قابض ہوئی تب ملتان کے بجائے لاہور ادبی مرکز بن گیا ۔لاہور کی مقامی بولی ملتان میں پیدا شدہ نئ زبان بازاری زبان کے نام سے مشہور ہوئی اور پھر ہندوی اور بعد ازاں لاہوری زبان کا نام پا گئ ۔

 

اردو اور ہندی دو بہنیں 

حقیقت یہ ہے کہ اردو کسی غیر ملکی زبان کا نام نہیں، 

  بلکہ یہ اسی جدید زبان کا نام ہے جو دو قوموں کے اخلاط سے ہندوستان میں پیدا ہوئی تھی ۔ مگر جب انگریز حکومت آئی تو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت کا بیج بونا شروع کر دیا ۔ 

فورٹ ولیم کالج میں ہندو مسلمان ملازم رکھے گئے اور ہندوستانی زبان کے دو حصے کر دیئے گئے۔ زبان کی ایک شاخ ناگری حروف میں لکھی گئی جسے ہندی نام سے موسوم کیا گیا اور دوسری شاخ اردو رسم الخط میں لکھی گئی اسے اردو کا نام دیا گیا ۔ ہندی اور اردو کا  جگھڑا شروع ہو گیا ۔ایک شاخ میں سنسکرت الفاظ کی کثرت ہو گئ اور دوسری میں عربی اور فارسی کی۔ کچھ لوگوں نے اردو کو مسلمانوں کی زبان کہنا شروع کر دیا ۔اور ہندی کو ہندوؤں کی۔ حالانکہ ہندستانی زبان ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ زبان تھی

یہ تھی انگریز کی وہ چال جس سے ہندوستانی زبان دو شاخوں میں تقسیم ہوگئی اور آۓ دن ہندی اور اردو کے جھگڑے شروع ہو گئے آخر ہندی اور اردو ایک دوسرے سے جدا ہو گئیں ۔ تو ان دونوں زبانوں کو اگر بہنیں کہا جا ۓ تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی جاۓ پیدائش ،ترویج و ترقی ایک ہی مقام پر ہوئی اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو فارسی زبان کی شاخ نہیں بلکہ ہند آریائی زبان ہے اور اس لئے اردو کو کبھی ہندی کبھی ہندوی اور کبھی ہندوستانی کہا گیا ہے ۔

خان آرزو اسے “ہندی اہل اردوۓ ہند”کہا کرتے تھے ۔ 

ڈاکٹر سہیل بخاری جو ایک مانے ہوئے ماہر لسانیات ہیں لکھتے ہیں کہ

دراصل اردو اور ہندی ایک ہی زبان کے دو روپ ہیں جنہیں ماہرین علم زبان نے کھڑی بولی کا نام دیا ہے ۔،

 

 

Share this with your friends