*زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے…
امجد اسلام امجد صاحب اردو ادب کی دنیا کی وہ نامور شخصیت تھے جنہوں نے لاکھوں لوگوں کے دل و دماغ اپنے لفظوں کا جادو چلایا
وہ ایک غیر معمولی شاعر تھے جو خوبصورت نظموں اور شعروں کے لیے جانا جاتے تھے اور پڑھنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے گھر کر جاتے تھے
امجد اسلام 4اگست 1944 کو لاہور میں پیدا ہوئے.اپنی تعلیم لاہور سے ہی مکمل کی انہوں نے اردو ادب میں ماسٹرز آف آرٹ کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی. انھوں نے گورنمنٹ ایم اے او کالج لاہور میں ایک لیکچرار کے طور پہ اپنے کیریئر کا آغاز کیا.امجد اسلام امجد نے 1975 1979 تک پاکستان ٹیلی ویژن پہ ایک ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا. 1989 میں وہ اردو سائنس بورڈ کے ڈیکیٹر منتخب ہوئے.
امجد اسلام امجد نے کئی ڈرامہ سیریل بھی لکھے.جن میں مشہور زمانہ ڈرامہ سیریل وارث بھی شامل ہے.انھوں نے بہت سی نظمیں اور غزلیں لکھی. وارث ,سمندر, وقت,اپنے لوگ اور دہلیز شامل ہیں.انھیوں نے 2008 سے ڈیلی نیوزپیپر میں چشمان تماشا کے نام سے کالم لکھنا شروع . انہوں ادب میدان میں ستارہ امتیاز,بیسٹ پلے رائٹر, بیسٹ فلم رائٹر سمیت بہت ایوارڈز سے نواز گیا. امجد اسلام امجد اردو ادب ایک ستون تھے جو آج گر گیا.
امجد اسلام امجد آج 78 سال عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے، لیکن وہ اپنے لفظوں میں اپنی نظموں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے.
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے”
ستاروں سے بھرے اس آسماں کی وسعتوں میں
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے
فلک پر کہکشاں در کہکشاں اک بے کرانی ہے
نہ اس کا نام ہے معلوم، نہ کوئی نشانی ہے
بس اتنا یاد ہے مجھ کو
ازل کی صبح جب سارے ستارے
الوداعی گفتگو کرتے ہوئے رستوں پہ نکلے تھے
تو اس کی آنکھ میں اک اور تارا جھلملایا تھا
اسی تارے کی صورت کا
مری بھیگی ہوئی آنکھوں میں بھی اک خواب رہتا ہے
میں اپنے آنسوؤں میں اپنے خوابوں کو سجاتا ہوں
اور اس کی راہ تکتا ہوں
سنا ہے گمشدہ چیزیں
جہاں پہ کھوئی جاتی ہیں
وہیں سے مل بھی جاتی ہیں
مجھے اپنا ستارا ڈھونڈنا ہے
امجد اسلام امجد~
آپ ایک فطری ہنر مند تھے اور اپنی نسل کے سب سے باصلاحیت شاعروں میں سے ایک کے طور پر جلد ہی مشہور ہو گئے، امجد اسلام امجد نے اپنی پوری زندگی اردو ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے وقف کی اور اردو زبان کے عظیم ورثے کے تحفظ کے لیے انتھک محنت کی۔
امجد صاحب نے محبت فطرت، روحانیت اور سماجی مسائل سمیت بہت سے موضوعات پر وسیع پیمانے پر لکھا اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اِن کے شاعری کو نہایت گہرا خوبصورت اور جذباتی شدت کے لیے مانا جاتا ہے
امجد اسلام امجد کی شاعری کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ انھوں نے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے دلوں کو چھو لیا
امجد صاحب کے الفاظ نے انسان کی عالمگیریت سے بات کی اور اِن کے الفاظ ان لوگوں کو تسلی اور سکون فراہم کرتے ہیں جو ہماری طرح شدید جدوجہد کے بعد بھی ناکامی کا سامنا کرتے ہیں-وہ اپنے فن کے حقیقی ماہر تھے اور اردو ادب میں ان کی خدمات کو آنے والی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔
ایک عالم کو اپنا اسیر بنائے رکھنے والے امجد اسلام امجد آج 10 فروری کو ہمارے بیچ نہیں رہے۔ لیکن اردو ادب میں تخلیق کئی صدیاں تر تازہ رہی گی. محبت، خواب، خیال، رنج و ملال، امید پیہم کی راہ گزر سے گزرنے والی یہ شخصیت ہمیشہ سخن سرا رہے گی اور ہماری تہذیب کے استعاروں کو نئی راہ دکھاتی رہے گی.
امجد اسلام امجد کی وفات اردو ادب کی دنیا اور ان لاکھوں لوگوں کے لیے بہت بڑا نقصان ہے جو ان لیکھت اور شاعری کے دیوانے تھے
ان کے انتقال پر گہرے دکھ اور نقصان کا احساس ہوا چونکہ یہ حقیقت ہے کہ ان کی میراث شاعروں اور ادیبوں کی آنے والی نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی
امجد اسلام امجد ایک سچے بصیرت والے اپنے ہنر کے ماہر اور انسانیت کیلئے گہرا درد رکھنے والے انسان تھے وہ اپنے پیچھے شاعری کا ایک بھرپور ورثہ چھوڑ گیا ہے جو آنے والے کئی سالوں تک لوگوں کے دلوں کو متاثر کرتا اور چھوتا رہے گا۔ ان کی وفات اردو ادب کی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے لیکن ان کی خدمات زندہ رہیں گی، جو ان کی غیر معمولی صلاحیتوں اور ان کی شاعری کی لازوال کوششوں کا ثبوت ہیں۔
اللہ تعالی کی کروڑوں رخمتیں اُن کی قبر پر ہو.