عاشورعربی زبان میں 10 کو کہا جاتا ہے ۔اسی مناسبت سے اسلامی سال کے پہلے مہینے کی دسویں تاریخ یوم عاشور یا عاشورا کہا جاتا ہے۔ یہ دن ابتدا سے ہی بہت اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ اس دن سے عظیم تاریخی واقعات جڑے ہوئے ہیں ۔ یوم عاشور یعنی 10 محرم الحرام کی اہمیت کے حوالے سے نزہۃ المجالس ، تفسیر معارف القرآن اور دیگر بے شمار کتب میں اس دن کی اہمیت کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ جیسے
۔ یوم عاشورکے دن آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیاگیا۔
۔ اسی دن حضرت آدم علیہ والسلام کی توبہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔
۔ اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔
۔ اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری۔اور ہولناک سیلاب سے نجات حاصل ہوئی۔
۔ اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے خلیل اللہ کا لقب عطا فرمایا اوراسی دن ہی نارِ نمرود ان پر ٹھنڈی ہوئی۔
۔ اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
۔ اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید سے رہائی ملی اور مصر کی حکومت عطا ہوئی۔
۔ اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
۔ اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی۔
۔ اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت کا نزول ہوا۔
۔ اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو پوری دینا کی بادشاہت ملی۔
۔ اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری سے شفا ملی۔
۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعدباہر نکالے گئے۔
۔ اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔
۔ اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
۔ اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمان پر اٹھایا۔
۔ اسی دن دنیا میں پہلی بارش ہوئی۔
۔ قبل از اسلام یوم عاشور کو ہی قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔
۔ اسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوا۔
۔ اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہٴ رسول،جگر گوشہٴ فاطمہ حضرت امام حسین کو میدانِ کربلا میں شہید کیا۔
۔ اوریوم عاشور کے دن ہی قیامت قائم ہوگی۔
محرم الحرام حرمت والے مہینوں میں سےسب سے پہلا مہینہ ہے تبھی اس کے ساتھ ’’حرام‘‘ کا لفظ لگایا جاتا ہے اور یہاں ’’حَرام‘‘ حلال کے مقابلے میں نہیں بلکہ اس لفظ ’’حَرام‘‘ سے مراد’’ عزت و حرمت ہے‘‘ چونکہ محرم کا مہینہ عزت و حرمت والا ہے اسی لئے اس کے ساتھ حرام استعمال کیا جاتا ۔
ماہ محرم الحرام جب بھی آتا ہے تو اپنے ساتھ کربلا والوں کی یادلاتا ہے۔ اسیرانِ کربلا و شہدائے کربلا بالخصوص نواسۂ رسول ﷺ ، جنتی نوجوانوں کے سردار،سید الشہداء، امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد دلوں کو تڑپاتی اور آنکھوں کو اشک بار کرتی ہے۔میدان کربلا میں اہلبیت اطہار کو وہ مصائب وآلام پیش آئے جن کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ سیِّدُنا امامِ حسین کو مع شہزادگان و رُفقا تین دن بھوکا پیا سارکھنے کے بعد ’’عاشورا‘‘ کے روزمیدانِ کربلا میں نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔
امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدان کربلا میں ایک ایک کرکے اپنے خاندان سمیت 72 جانثار ساتھیوں کو راہ خدا میں لٹادیا لیکن یزید کے ہاتھ پر بیعت نہ کی۔میدان کربلا کی منظر کشی یوں تو متعدد شعراء نے اپنے اپنے انداز میں کی مگر مولانا حسن رضا کی منقبت اپنی مثال آپ ہے ۔
؎باغ جنت کے ہیں بہرِ مدح خوان ِاہلبیت
تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلبیت
کس زباں سے ہو بیانِ عز و شانِ اہلبیت
مدح گوئے مصطفے ہے مدح خوانِ اہلبیت
ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں
آیہء تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلبیت
رزم کا میدان بنا ہے جلوہ گاہِ حسن و عشق
کربلا میں ہو رہا ہے امتحانِ اہلبیت
پھول زخموں کے کھلائے ہیں ہوائے دوست نے
خون سے سینچا گیا ہے گلستانِ اہلبیت
جمعہ کا دن ہے کتابیں زیست کی طے کر کے آج
کھیلتے ہیں جان پر شہزادگانِ اہلبیت
اے شبابِ فصلِ گل یہ چل گئی کیسی ہوا
کٹ ریا ہے لہلہاتا بوستانِ اہلبیت
کس شقی کی ہے حکومت ہائے کیا اندھیر ہے
دن دھاڑے لٹ رہا ہے کاروانِ اہلبیت
خشک ہو جا خاک ہو کر خاک میں مل جا فرات
خاک تجھ پر دیکھ تو سوکھی زبانِ اہلبیت
خاک پر عباس و عثمانِ علمبردار ہیں
بیکسی اب کون اٹھائے گا نشانِ اہلبیت
گھر لٹانا جان دینا کوئی تجھ سے سیکھ جائے
جانِ عالم ہو فدا اے خاندانِ اہلبیت
سر شہیدانِ محبت کے ہیں نیزوں پر بلند
اور اونچی کی خدا نے قدر و شانِ اہلبیت
اپنا سودا بیچ کر بازار سونا کر گئے
کونسی بستی بسائی تاجرانِ اہلبیت
(مولانا حسن رضا خان)
؎خوں رنگ ہیں مناظرِ ارض و سما بھی آج
نکلے ہیں جاں سے کھیلنے آلِ عبا بھی آج
باطل بھی انتہائے ستم کر چکا یہیں
کربل میں سرفراز ہیں اہلِ رضا بھی آج
مولاکے ذوقِ سجدہ پہ حیراں ہیں دوجہاں
حیرت زدہ ہے دشت میں خوئے وفا بھی آج
(مرزا حفیظ اوج)
اگرامام حسین بن علی رضی اللہ عنیہ یزید کی بیعت کرلیتے تو یزید آپ کی بہت قدرومنزلت کرتا، خوب مال ودولت نچھاور کرتالیکن اِسلام کا نظام درہم برہم ہوجاتا اور ایسا فساد برپا ہوتا جسے بعد میں دور کرنا دُشوار ترین امر ہوتا۔اسی وجہ سے معرکہء کربلا کو اسلام کی جیت اور اہلِ بیت اطہار کی جیت کہا جاتا ہے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر نبی کریم ﷺ کے دور مبارکہ سے ہی مشہور ہوگئی تھی۔امام احمدبن حنبل نے روایات کیا جس میں حضوراکرم ﷺ نے فرمایا
میرے پاس وہ فرشتہ آیا جو اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا۔اُس نے عرض کیا کہ آپ کا فرزند (حسین رضی اللہ عنہ) شہید کیا جائے گا۔اگر آپ کہیں تو میں اُن کے مقتل گاہ کی مٹی پیش کردوں ۔ پھر اس نے تھوڑی سی سرخ مٹی پیش کی ۔(مسند امام احمد)
روایات میں ملتا ہے کہ بوقتِ شہادت سیِّدُ الشُّہَدا ، امامِ عالی مقام حضرتِ سَیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی عمر مبارک 56 سال پانچ ماہ پانچ دن تھی ۔ (سوانح کربلا،ص:170)