حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نیہں ہیں ۔ کیسی آزمائش کی گھڑی رہی ہوگی کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیےنمرود نے آگ تیار کرائی ، ایک طرف نمرود کی سلگائی ہوئی خوفناک آگ اور دوسری طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں اللہ کی رضا کے لئے پھینکے جانے کو تیار، بالاخر حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آگ میں بے دھڑک کود پڑے اور اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو حکم دیا:
یَا نَارُ کُونِی بَرْدًا وَسَلاَمًا عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ (الانبیاء:69)
اے آگ تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔
جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو اللہ نے آگ کو حضرت ابراہیم پر ٹھنڈا اور سلامتی والا ہونے کا حکم دیا اور آگ کی گرمی آپ پرختم فرما دی گئی اور روشنی باقی رہی اور اس آگ نے ان صرف ان رسیوں کو جلایا جن سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو باندھا گیا تھا۔
پھر اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ وہ اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور بیٹے حضرت اسماعیل کو اس وادی میں چھوڑ کر آئیں جہاں نہ کوئی آبادی ہے اور نہ دانا پانی
سو اللہ کے حکم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی اور بیٹے کو مکہ کی بے آب و گیا وادی میں چھوڑ آتے ہیں جہاں نہ کوئی خبر گیری کرنے والا، نہ کو راہ گیر، نہ کوئی قریب نہ دور، یہ بالکل نہ سوچا کہ اُس تپتی ہوئی وادی میں ممتا کی ماری ایک ماں اور شیرخوار بچے کا کیا ہوگا۔ بس خدا کا حکم ملتے ہی تعمیل کے لیے فوراً تیار ہوگئے اور حکم کو تجسیمی شکل دینے میں ذرہ برابر بھی تاخیر نہ کی۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور اُن کے ننھے منے بچے پر اُس وحشت ناک وادی میں کیا گذری؟ اُس تپتی ہوئی وادی میں وہ شیرخوار بچہ جب دیوارِ کعبہ سے ایڑیاں رگڑتا تو ماں تڑپ تڑپ کر کبھی صفا کی طرف دیکھتی کہ شاید کوئی قافلہ نظر آجائے اور پانی مل جائے، اور کبھی دوڑتی ہوئی مروہ پر چڑھتی کہ شاید ادھر کوئی قافلہ گذرتاہوا دکھائی دے
پھر بھاگی بھاگی بچے کو دیکھنے آتی کہ کس حال میں ہے، اُس معصوم کو دیکھ کر پھر پانی کی تلاش میں صفا ومروہ کا چکر لگاتی، اور جب امید کی کوئی کرن نظر نہ آتی تو بے قرار ہوجاتی، کلیجے منہ کو آنے لگتے، تاآں کہ اللہ رب العزّت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لاڈلے کی ایڑیوں کی رگڑ سے پانی کا چشمہ جاری فرمادیا جو ”زمزم“ کے نام سے مشہور ہے، اور اُس وقت سے آج تک اسی طرح جاری ہے۔
پھر اس کے بعد سب سے بڑی قربانی کا حکم ہوا جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰى فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰىؕ-قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ٘-سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصف:102)
پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہوگیا کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے کہا اے میرے باپ کیجئے جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔
یہ امتحان کس قدر سخت تھا اِس کی طرف اشارہ خود الہ رب العزّت نے ”فلما بلغ معہ السعي“ سے اشارہ فرمادیا کہ دعاؤں سے مانگے ہوئے اُس بیٹے کو قربان کرنے کا حکم اُس وقت دیاگیا جب یہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا اور پرورش کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد اب وہ وقت آیا کہ وہ قوتِ بازو بن کر باپ کا سہارا ثابت ہومگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مفسرین کے مطابق اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ سال تھی اور بعض دیگر مفسرین کے مطابق وہ بالغ ہوچکے تھے۔
تفسیر خازن میں مندرجہ بالا آیت کے تحت لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو فرزندعطا فرمایا ،وہ پلتے بڑھتے جب اس عمر تک پہنچ گئے جس میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حاجت اور ضروریات میں ان کے ساتھ کام کرنے کے قابل ہو گئے تو ان سے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں اور انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خواب حق ہوتے ہیں اور ان کے افعال اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا کرتے ہیں ، اب تو دیکھ لے کہ تیری کیا رائے ہے؟ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ اس لئے کہا تھا کہ ان کے فرزند کو ذبح ہونے سے وحشت نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کے لئے رغبت کے ساتھ تیار ہوجائیں، چنانچہ اس فرزندِ اَرْجْمند نے اللہ تعالیٰ کی رضا پر فدا ہونے کا کمالِ شوق سے اظہار کرتے ہوئے فرمایا’’ اے میرے باپ! آپ وہی کریں جس کا آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیاجارہا ہے۔اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے ذبح پرصبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
قرآن کریم میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورۃ الصف کی آیت نمبر 103 میں ارشاد فرمایا:
فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِ
تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی۔
اس آیت کی تفسیر میں تفسیر بغوی جلد 4 صفحہ نمبر 28 پر رقم ہے کہ:
جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے فرزند نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر ِتسلیم خم کر دیا اور جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے فرزند کو ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا تو ان کے فرزند نے عرض کی’’اے والد ِمحترم ! اگر آپ نے مجھے ذبح کرنے کا ارادہ کر لیا ہے تو پہلے مجھے رسیوں کے ساتھ مضبوطی سے باندھ لیں تاکہ میں تڑپ نہ سکوں اور اپنے کپڑے بھی سمیٹ لیں تاکہ میرے خون کے چھینٹے آپ پر نہ پڑیں اور میرا اجر کم نہ ہو کیونکہ موت بہت سخت ہوتی ہے اور اپنی چھری کو اچھی طرح تیز کر لیں تا کہ وہ مجھ پر آسانی سے چل جائے اور جب آپ مجھے ذبح کرنے کے لئے لٹائیں تو پہلو کے بل لٹانے کی بجائے پیشانی کے بل لٹائیں کیونکہ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ جب آپ کی نظر میرے چہرے پر پڑے گی تو ا س وقت آپ کے دل میں رقت پیدا ہو گی اور وہ رقت اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل اور آپ کے درمیان حائل ہو سکتی ہے اور اگر آپ مناسب سمجھیں تو میری قمیص میری ماں کو دیدیں تاکہ انہیں تسلی ہو اور انہیں مجھ پر صبر آ جائے ۔حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’ اے میرے بیٹے! تم اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے میں میرے کتنے اچھے مددگار ثابت ہو رہے ہو۔ اس کے بعد فرزند کی خواہش کے مطابق پہلے اسے اچھی طرح باندھ دیا، پھر اپنی چھری کو تیز کیا اوراپنے فرزند کومنہ کے بل لٹا کر ان کے چہرے سے نظر ہٹا لی، پھر ان کے حَلق پر چھری چلادی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں چھری کو پلٹ دیا،اس وقت انہیں ایک ندا کی گئی ’’اے ابراہیم ! تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا اور اپنے فرزند کو ذبح کے لئے بے دریغ پیش کر کے اطاعت وفرمانبرداری کمال کو پہنچادی، بس اب اتنا کافی ہے،یہ ذبیحہ تمہارے بیٹے کی طرف سے فدیہ ہے اسے ذبح کر دو۔ یہ واقعہ منیٰ میں واقع ہوا۔
اسی آیت کے ضمن میں تفسیر خازن جلد 4 صفحہ 23 میں موجود ہے کہ
جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے فرزند کو ذبح کرنے کیلئے چلے تو شیطان ایک مرد کی صورت میں حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس آیا اور کہنے لگا’’کیا آپ جانتی ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام آپ کے صاحبزادے کو لے کر کہاں گئے ہیں ؟آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا’’وہ اس گھاٹی میں لکڑیاں لینے کیلئے گئے ہیں ۔ شیطان نے کہا’’خدا کی قسم! ایسانہیں ،وہ تو آپ کے بیٹے کو ذبح کرنے کیلئے لے گئے ہیں ۔حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا’’ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو اپنے فرزند پر بہت شفقت کرتے اور اس سے بڑا پیار کرتے ہیں ۔ شیطان نے کہا’’ان کا گمان یہ ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم دیا ہے۔حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا: ’’اگر انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو پھر اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے رب تعالیٰ کی اطاعت کریں ۔یہاں سے نامراد ہو کر شیطان حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچا اور ان سے کہا ’’اے لڑکے!کیا تم جانتے ہو کہ آپ کے والد آپ کو کہاں لے کر جا رہے ہیں ؟ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا’’ہم اپنے اہلِ خانہ کے لئے اس گھاٹی سے لکڑیاں لینے جا رہے ہیں ۔ شیطان نے کہا: ’’خدا کی قسم! وہ آپ کو ذبح کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام نے فرمایا’’ وہ اس چیز کا ارادہ کیوں رکھتے ہیں ؟شیطان نے کہا’’ان کے رب تعالیٰ نے انہیں یہ حکم دیا ہے۔ حضرت اسماعیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایاپھر تو انہیں اپنے رب تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنا چاہئے، مجھے بسر و چشم یہ حکم قبول ہے۔ جب شیطان نے یہاں سے بھی منہ کی کھائی تو وہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچا اور کہنے لگے’’اے شیخ! آپ کہاں جا رہے ہیں ؟حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا: ’’اس گھاٹی میں اپنے کسی کام سے جارہا ہوں ۔ شیطان نے کہا’’اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں کہ شیطان آپ کے خواب میں آیا اور ا س نے آپ کو اپنا فرزند ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔اس کی بات سن کر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اسے پہچان لیا اور فرمایا’’اے دشمنِ خدا! مجھ سے دور ہٹ جا ،خدا کی قسم ! میں اپنے رب تعالیٰ کے حکم کو ضرور پورا کروں گا۔یہاں سے بھی شیطان ناکام و نامراد ہی لوٹا۔
سورۃ الصف کی اگلی آیات میں اللہ نے ارشاد فرمایا:
وَ نَادَیْنٰهُ اَنْ یّٰۤاِبْرٰهِیْمُ۔قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْیَاۚ-اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ۔وَ فَدَیْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ۔سَلٰمٌ عَلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ۔كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۔اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (الصف: 104-111)
اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھاور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم بےشک تو نے خواب سچ کردکھائی ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کوبےشک یہ روشن جانچ تھیاور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے صدقہ میں دے کر اسے بچالیا اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھیسلام ہو ابراہیم پر ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کوبےشک وہ ہمارے اعلٰی درجہ کے کاملُ الایمان بندوں میں ہیں
حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کے صاحبزادے ا س اطاعت میں نیکی کرنے والے تھے تو جس طرح ہم نے ان دونوں نیک ہستیوں کو جزا دی اسی طرح ہم ہر نیکی کرنے والے کو جز ا دیں گے۔ علامہ بیضاوی فرماتے ہیں اس ذبیحہ کی شان بہت بلند ہونے کی وجہ سے اسے بڑا فرمایا گیا کیونکہ یہ اس نبی عَلَیْہِ السَّلَام کا فدیہ بنا جن کی نسل سے سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں۔
اللہ اللہ! یہ جذبہٴ قربانی کہ بیٹے کے گلے پر چھری چلادی اور اس پر مزید یہ کہ چھری تلے گردن رکھ دی اور خلیل و ذبیح دونوں نے اپنا اپنا حق ادا کر دونوں باپ بیٹے نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور آزمائش میں پورے پورے کامیاب رہے اور یہ ادائے قربانی اللہ کو اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک کے لیے یادگار اور قربِ خداوندی کا ذریعہ بنادیا جسے امت مسلمہ ہر سال مناتی ہے، اور اِس قربانی میں درحقیقت مسلمانوں کے اِس عقیدے کا اعلان ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ رب العزت کے حکم کے آگے اپنی عزیز سے عزیز ترین چیز کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔