اسلام کو چھپاؤ ورنہ بغاوت پھیل جائے گی
کیا کہا؟ ارے آہستہ بولو! اگر کسی نے سن لیا تو؟ اس کی بات سن کر میں سہم گیا۔ محتاط نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا۔ سن لیا تو کیا ہوگا؟ اس نے سگریٹ جلائی اور دھواں اڑانے لگا۔ راولپنڈی کے اس ڈھابے پر اس دن زیادہ رش نہیں تھا، مگر مجھے چھترول کا ڈر تھا۔ میں ابا جی کی مہربانی سے بچپن سے ہی چھترول کا عادی تھا مگر اس دن غازیوں کے جذبات مجروح ہوئے تھے۔ مجھے اتنے لوگوں سے پٹنے کا کوئی شوق نہیں تھا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور باہر سڑک پر لے آیا۔
مگر پتہ کیسے چلے کہ کون حق بات پر ہے اور کون ناحق پر؟ میں نے تلملا کر پوچھا۔ وہ اچانک بولا، اس کا بھی ایک طریقہ ہے۔ لو جی کرلو بات، اب اسی بات کی کسر رہ گئی تھی، جی جی فرمایئے علامہ صاحب! اس نے میرے طنز کو نظرانداز کیا اور بولنا شروع کیا۔ بہت آسان ہے۔ جو لوگ اسلام کے حوالے دے رہے ہیں۔ ان کو ذرا 1400 سال پہلے والے اسلام کی جھلک دکھلا دو تو ان سب کے چہروں سے نقاب الٹ جائیں گے۔ میں اس کے دعوے پر حیران رہ گیا۔ ارے میاں ہوش میں تو ہو؟ کیا مطلب؟ اسلام کی جھلک دکھلا دو؟ یہ سب علامہ، مفتی، قاری، حافظ ہیں۔ انہوں نے اسلام کو گھول کر پیا ہوا ہے۔ ان کی زندگیاں گزر گئی ہیں اسلام کی خدمت کرتے، اور تم آج کی ممی ڈیڈی جنریشن ان کو اسلام سکھاؤ گے؟ تم ہوش میں تو ہو؟ لگتا ہے کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہے تمہیں، میں نے اس پر چڑھائی کردی۔
وہ مسکرایا اور میری بات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے دوبارہ بولنے لگا، وہ رحمت العالمین نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم جو خود پر کوڑا پھینکنے والی کے گھر تیمار داری کرنے چلے جائیں، جو اپنے چچا کا کلیجہ چبانے والی کو معاف کردیں، جو اپنے گلے میں چادر سے گلا گھوٹنے والوں، پتھر مارنے والوں کے لئے بد دعا کے بجائے ہدایت کی دعا کرے، جو اسلام ایک انسانی جان کے زیاں کو انسانیت کی موت قرار دے دے، جو ہمیشہ انسانیت اور قانون کی بات کرے، وہ اسلام ایک شخص پر بغیر مقدمہ چلائے، بغیر عدالت سے جرم ثابت کروائے کس طرح موت کے گھاٹ اتارنے کی سزا دے سکتا ہے؟
اور جہاں تک مولویوں کی بات ہے، تو ان کی قابلیت کا اندازہ اس سے لگا لو کہ ہمارے ملک میں کل پی ایچ ڈی اسلامیات کی تعداد 30 کے قریب ہے اور باقی مولوی حضرات؟ مولوی کی قابلیت کوئی نہیں دیکھتا۔
مگر جناب اب اس کا کوئی حل بھی تجویز فرما دیں آپ تو مہربانی ہوگی تاکہ عالم اسلام کی رہبری ہوجائے۔ میں نے طنز کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پوچھا۔
ہمیں نہ صرف مدرسوں کا نظام تبدیل کرنا پڑے گا بلکہ گھر کا نظام بھی سنوارنا پڑے گا۔
ہمیں اپنے لائق اور عقل مند بچوں کو جامعہ کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلام کی تعلیم بھی دینا ہوگی۔
صرف عربی یاد کرانے سے کام نہیں چلے گا، اسلام کی روح اور پیغام کو سمجھنا پڑے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کا بھی فرض ہے کہ وہ بے روزگاروں کے لئے روزگار کا بندوبست کرے تاکہ لوگ شدت پسندی کی طرف نہ جائیں۔
پھر ملک بھر کی مساجد کا نظام بھی حکومت کو اپنے ماتحت کرنا پڑے گا جیسے کے دیگر اسلامی ممالک میں ہے۔ امام کی تقرری بھی حکومت کرے۔
اب اُس نے اچھی خاصی تقریر جھاڑ دی تھی۔
مگر یہ پتہ کیسے چلے کہ حق پر کون تھا؟ کیونکہ کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ جو جس کو سچا سمجھے گا اور حمایت کرے گا، قیامت والے دن اس کا حشر اس کے ساتھ ہی ہوگا۔ یار میں تو ڈرا ہوا ہوں کہ کہیں اپنی بے عقلی میں کچھ غلطی ناں کر بیٹھوں۔ سارے اعمال ہی ضائع نہ ہو جائیں۔ ایک ہی زندگی ملی ہے اور اس ایک مسئلے کی وجہ سے کہیں آخرت خراب نہ ہوجائے۔
دیکھو یار! اللہ کسی کے اعمال ضائع نہیں کرتا۔ اب آسمان سے فرشتے تو اتر کر نہیں آئیں گے حقیقت بتانے، ہاں مگر ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور نبی صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے فرمان موجود ہیں اور عقل اور دلیل کا تحفہ بھی۔ اِس لیے ہمیں سچ کی تلاش خود کرنا پڑے گی، اگر ہم یہ کرلیں تو میرا گمان کہتا ہے کہ اللہ صرف اس بات پر ہی ہم سے راضی ہوجائیں گے کہ ہم نے حق تک پہنچنے کے لیے سچی اور اپنی جانب سے پوری پوری کوشش کی۔ ہم نے راہِ حق کی جانب قدم تو بڑھایا اور وہ لوگ جنہوں نے گھر بیٹھے بٹھائے ہی ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر حق و باطل کا فیصلہ کرلیا ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر یوں ہی فیصلے ہوتے رہے تو پھر اسلام اور مسلمان کا اللہ حافظ! اگر آپ اسلام کی خدمت نہیں کرسکتے تو خدارا اسے نقصان بھی مت پہنچائیے۔
یہ شہرِ طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے
کہ پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ ہے کہ ابلیس؟
(آفتاب احمد شمسی کی کتاب ’’اسلام کو چھپاؤ ورنہ بغاوت پھیل جائے گی‘‘ سے متاثر ہوکر لکھا گیا مضمون)