پاکستانی قوم جن حالات سے دوچار ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ملک میں آئے دن مہنگائی پریشان کن ہے۔ مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آ رہا اور نہ مستحکم ہو رہا ہے۔ ملک میں نت نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں پھر چاہے وہ سیاسی فتنے ہوں یا مذہبی۔ امن و امان تو ملک سے ایسے روٹھا ہے کہ ماننے کا نام نہیں لے رہا۔ اطمینان و سکون ہوا ہو گیا اور کروٹیں خواب گاہوں سے ایسی جدا ہوئیں کہ شاید پرلوک سدھار گئیں۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا مقصد امن و امان اور حرمتِ مسلم تھا لیکن یہاں ظلم و بربریت اپنے عروج پر ہے۔ آج کے دن ہمیں اللہ کے حضور ملک پاکستان کی بقا و سالمیت کی دعا کرنی چاہیے۔ بڑی عید (عید الاضحیٰ) کی آمد آمد ہے جو ہمیں ایثار و قربانی کا درس دیتی ہے۔ تمام اسلامی تہوار اپنے پس منظر میں کوئی نہ کوئی اہم سبق لیے ہوئے ہیں۔ عید الفطر کو ہی دیکھ لیجئے کہ عید الفطر سے قبل ہم بھوک پیاس برداشت کرتے اور اپنی خواہشات کو اللہ کی رضا و خوشنودی پر قربان کرتے ہیں اور یہ سلسلہ پورے مہینے چلتا ہے۔ جبکہ عید الاضحیٰ کے موقع پر سنت ابراہیمی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ کہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے پر امادہ ہو گئے۔اور اللہ کی حکم پر دونوں باپ بیٹے نے سر تسلیم خم کیا۔
عید الاضحٰی دراصل اپنے مال کی قربانی کا دن ہے کہ اس دن بندہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتا ہے. عید الاضحٰی کے دن ہر صاحب ثروت یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اچھے سے اچھا جانور اللہ کی راہ میں قربان کرے، جس کا اصل مقصد مال کی محبت کو دل سے نکالنا اور اپنی خواہشات کے گلے پر چھری چلانا ہے جیسے جانور کے گلے پہ چھری چلتی ہے ویسے ہی اللہ کی رضا کے لئے اپنی خواہشات کو بھی قربان کر دیا جائے. اس سارے عمل میں نیت کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔
عیدالاضحی جسے عید قرباں اور بقرہ عید بھی کہتے ہیں دراصل یہ مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے تحفے اور عطیے کی مانند ہے، اس عید میں ہم سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے،کی راہ میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس عید کا مقصد صرف جانوروں کی قربانی کر کے گوشت جمع کرنا ہے، جب کہ اس تہوار کی اصل روح اپنے نفس کا تذکیہ ہے۔عید قرباں کا مطلب صرف یہ نہیں کہ آپ جانور خرید کر اسے اللہ کی راہ میں قربان کر دیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ اپنے نفس، اپنی روح کو احکام الٰہی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اپنے اندر لالچ، حرص، حسد، غرور، بغض و کینہ کو نکال کے اپنے دل و دماغ کو پاکیزہ کر لیں۔ناراضی و نا اتفاقی ہر گھر میں کسی نہ کسی سطح پر ہو ہی جاتی ہے، مگر ہمارا یہ تہوار ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اس عید کے توسط سے ہم اپنی ذاتی رنجشوں، ناراضگیوں اور ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظر انداز کر کے کھلے دل سے ایک دوسرے کو گلے لگا لیں۔
اگر ہم غور کریں تو دونوں عیدیں غربا مسکین کو شریک کرنے کا نام ہے۔ہمارا دین غریبوں اور ناداروں کی مدد کرنے پر خصوصی زور دیتا ہے۔ عید قرباں اسی مقصد کو پورا کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہے، اس کا بنیادی مقصد وہ غریب افراد ہیں جو پورا سال اس دن کا نتظار کرتے ہیں۔ لیکن ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار ہو چکا اب ہم گوشت یا توفریج کرتے ہیں یا ان لوگوں کودیتے ہیں جہاں سے ہمارے گھر گوشت آتا ہے یا پھر ایسے خاص الخاص گھروں میں اعلیٰ قسم کا گوشت بھجوایا جاتا ہے، جہاں مطلب ہوتا ہے اور باقی گھروں میں انتہائی واجبی سا گوشت دیا جاتا ہے۔ اگرہم ایسا کرتے ہیں، تو جان لیجیے کہ آپ اپنی قربانی کے مفہوم کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ایسے گھرانے جو گوشت کھانے سے محروم ہوتے ہیں یا ان کی مالی حیثیت کمزور ہوتی ہے، وہاں گوشت بھجوا کر ہی آپ صحیح معنوں میں حقِ قربانی ادا کر سکتی ہیں۔ اسی طرح اپنے ایسے عزیز و رشتے دار جو غریب ہیں، ان کی مدد کرنا اور ان پر خصوصی توجہ دینا بھی آپ کا فرض ہے۔ صرف اپنے ہم پلہ گھرانوں کی دعوتیں کرنا، ان سے میل جول رکھنا اور غریب رشتے داروں کو نظر انداز کرنا اس تہوار کے منافی ہے۔عید قرباں صرف جانور ذبح کرنے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی لا محدود خواہشوں کو لگام دیں اور اپنے دل میں دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کریں۔ آج ہم اپنے ارد گرد خاندانی انتشار کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ بہت سے سگے بہن، بھائی تک ایک دوسرے سے ملنے کے روادار نہیں۔ اس کا واحد سبب ہمارے نفس کی سرکشی ہے اور یہ تہوار ہمیں اپنے نفس کو قربان کرنے کا درس دیتا ہے۔
جانور کی قربانی تو ایک علامت ہے اور اس بات کا عہد ہے کہ اگر ہمیں خدا کی راہ میں اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو پیش کرنا پڑے اور خدا کے احکامات کی پیروی اور خدا کے قوانین اور اسکے دستور کے نفاذ کے لئے عزیز ترین چیز بھی قربان کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو ہم اطاعت خداوندی میں قطعاً گریز نہیں کریں گے جبکہ بسا اوقات ہم قربانی کا جانور خرید کر لاتے ہیں اسے ذبح کرتے ہیں اور پھر اسے تقسیم کرتے ہیں، اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں سنت ابراہیمی پر عمل ہو گیا۔درحقیقت عید قربان عید بندگی ہے، عید قربان عید اطاعت پروردگار ہے، اس دن کو محترم جاننا اور عمل ابراہیمی کی تاسی کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس دن ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب تم اولاد جیسی نعمت کو خدا پر قربان کر سکتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کوئی چیز ایسی نہیں جو تمہارے اور قرب الٰہی کے درمیان حائل ہو سکے۔ یہ عید ہمیں محبت، بھائی چار ے، ایثار، قربانی اور اخوت کا پیغام دیتی ہے۔ اس مبارک دن میں ہمیں غریب، بے سہارا اور مستحق لوگوں کی بھرپور امداد کرنی چاہیئے۔ مصائب و مشکلات میں گھرے برادران ایمانی، غرباء و مساکین، اور مستحقین کی حاجت روائی اور انکی ضرورتوں کو اس دن میں پورا کر کے ان کے درمیان گوشت تقسیم کر کے ان کے چہروں پر مسکراہٹیں لائی جا سکتی ہیں، یہ عید ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ دوسرے ضرورت مندوں کی خوشیوں پر اپنی خوشیوں کو قربان کرتے ہوئے انکے لئے کچھ ایسا کیا جائے کہ وہ خوش ہو سکیں اور اپنی خواہشوں پر ضرورت مندوں اور محتاجوں کی خواہشوں کو مقدم کرنا ایک قربانی سے کم نہیں لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے وجود کے جانور کو خرید کر لانے والے جانور سے پہلے قربان کر چکا ہو، نفس کے درندے جانور کو قربان کر دیا ہو، یہی وجہ ہے کہ اگر عید الاضحٰی اور عید قربان سے قربانی کا تصور اور فلسفہ نکال دیا جائے تو پھر عید الاضحٰی کا مفہوم بےمعنی ہو جائے گا۔
وطنِ عزیز میں ایک بڑی آبادی خطِ غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اہل ثروث کی مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ارد گرد فاقہ مست لوگوں کو ضرور یاد رکھیں۔ جو حضرات ایک سے زائد قربانیاں کر رہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنا گوشت ان لوگوں تک ضرور پہنچائیں جو قربانی سے محروم ہیں تاکہ آپ ان کی خوشیوں کا سبب بن سکیں۔ اور ساتھ ہی ہمیں اس بات کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ لوگ عموماً قربانی کے جانوروں کی اوجڑی اور دیگر آلائشیں گلیوں اور سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔ بڑے شہروں میں تو کسی حد تک سرکاری مشینری صفائی کرنے پر مامور ہوتی ہے مگر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں کئی دنوں تک گندگی پھیلی رہتی ہے۔ صفائی ستھرائی صرف حکومت ہی کا کام نہیں ہے اپنے گرد و نواح کو گندگی سے پاک رکھنا ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ قربانی کرنے والوں کو چاہئے کہ جانوروں کی آلائشوں کو فوری طور پر ٹھکانے لگا کر ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔ قربانی اگر دینی فریضہ ہے تو صفائی بھی نصف ایمان ہے۔ہمیں عید قربان کے موقع پر صفائی کا بے حد خیال رکھنا ہوگا۔